کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 618
علامہ عبد العزیز رحیم آبادی (وفات:۴ جمادی الآخر ۱۳۳۶ھ/ ۱۷ مارچ ۱۹۱۸ء) یہاں رحیم آبادی دودمانِ صدیقی کے جس گلِ سرسبد کا تذکرہ مقصود ہے، اسے دنیا علامۂ کبیر، محدثِ جلیل عبد العزیز رحیم آبادی کے نام سے جانتی ہے۔ علامہ عبد العزیز اپنے عصر کے مشاہیر علمائے عالی قدر سے تھے۔ان کے علم و فضل، دولت و ثروت اور سعی وجہد سے اسلام اور اہلِ اسلام کو جو فوائدِ لامتناہیہ حاصل ہوئے، ان کا صحیح اندازہ لگانے سے آج اذہان قاصر اور دائرئہ معلومات محدود ہیں ۔وہ اپنے زمانے کے غزالی و رازی تھے۔ تقریر و تحریر اور فصاحت وبلاغت میں یگانۂ روزگار، تفسیر، حدیث، فقہ، تاریخ، ادب و دیگر اصنافِ علم کے ماہر و جامع تھے۔ انھوں نے اس وقت اندرونِ ہند تحریکِ جہاد میں نمایاں شمولیت اختیار کی جبکہ تحریک انگریزوں کے ہاں موردِ عتاب اور شدید خطرے میں تھی۔ ولادت: علامہ عبد العزیز بن احمد اللہ صدیقی رحیم آبادی محرم الحرام ۱۲۷۱ھ/ ۱۸۵۵ء[1] کو رحیم آباد (موجودہ ضلع سمستی پور) ترہت کمشنری، بہار میں پیدا ہوئے۔
[1] مولانا کا سالِ ولادت حکیم عبد الحی حسنی نے ’’نزہۃ الخواطر‘‘ (ص: ۱۲۷۸)، مولوی حافظ محمد صدیق صاحب نے اپنے مضمون (مشمولہ ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۱۲ مارچ ۱۹۲۰ء) میں ، مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی نے مقدمہ ’’حسن البیان‘‘ (ص: ۱۳) اور مولانا محمد عزیر شمس نے ’’حیاۃ المحدث شمس الحق و اعمالہ‘‘ (ص: ۲۸۱) میں ۱۲۷۰ھ لکھا ہے۔ مولانا محمد سکندر نے اپنے مضمون (مشمولہ ماہنامہ ’’رفیق‘‘ (پٹنہ) ’’علمائے بہار نمبر‘‘ جنوری و فروری ۱۹۸۴ء) میں ۱۲۷۷ھ لکھا ہے۔ سرور کریم نے ’’دربھنگہ کا ادبی منظر نامہ‘‘ (ص: ۳۰) میں ۱۸۵۳ء لکھا ہے۔ بایں ہمہ ہم نے مولانا ابو طاہر بہاری کے بیان کو ترجیح دی ہے۔ ملاحظہ ہو: ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۲۴ اکتوبر ۱۹۱۹ء۔