کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 616
افسوس صد افسوس! ہر گہہ بخاطر بگرزد اشکم زد امان بگرزد[1] لیکن عالم مجبوری میں سب کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے، سوائے وظیفہ انا للہ و انا الیہ راجعون کے چارہ نہیں ہے۔ نہ قضا بود کہ باہم رُویم میرسد آں وقت کہ ماہم رُویم[2] اے اللہ ان کو بخش اور جنت الفردوس میں داخل کر۔ ایسے موقع پر آپ سب صاحب مع دوسرے متعلقین کے صبر و تحمل اختیار کریں اور واسطے مرحوم و مغفور کے دعا مغفرت کی کریں ۔ اخلاص سے نمازِ جنازہ کی ادا کی۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے دعا از من اجابت از خدا باد زیادہ والسلام خیر الختام۔‘‘[3] اس تعزیتی مکتوب سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ شیخ احمد اللہ کیسی عظمت و رفعتِ شان کے حامل انسان تھے۔ شیخ احمد اللہ کی نسل میں اللہ نے بڑی برکت دی اور ان کی اولاد کو اپنے فضل و کرم سے نوازا۔ ان کی اولاد میں چار افراد نے شیخ الکل السید الامام نذیر حسین دہلوی سے اخذِ علم و استفادہ کیا، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں : 1 مولانا عبد الرحیم رحیم آبادی۔ 2 علامہ عبد العزیز رحیم آبادی۔ 3 مولانا محمد یٰسین رحیم آبادی۔ 4 مولانا محمود بن عبد الرحیم رحیم آبادی۔
[1] ’’جب بھی اس کا خیال دل میں آتا ہے تو آنسو دامن سے گزر جاتے ہیں ۔‘‘ [2] ’’اگرچہ نصیب میں یہ نہ تھا کہ مل کر دونوں جاتے، لیکن وہ وقت بھی آ پہنچا ہے کہ ہم بھی پیچھے چلے۔‘‘ [3] مکاتیبِ نذیریہ (ص: ۱۱۶، ۱۱۷) شیخ احمد اللہ کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو : حدیقۃ الانساب (۱/۴۶ تا ۴۸)، مکاتیبِ نذیریہ (ص: ۱۱۶، ۱۱۷)، حسن البیان والے مولانا عبد العزیز رحیم آبادی (ص: ۲۶ تا ۳۰)