کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 615
کے نام علی الترتیب یہ ہیں : مولانا عبد الرحیم، مولوی عبد الوہاب، علامہ عبد العزیز اور مولانا محمد یٰسین۔ مولوی عبد الوہاب نے کتبِ فارسیہ اور صرف و نحو عربی پڑھنے کے بعد وکالت میں اعلیٰ درجے کی تعلیم حاصل کی، جبکہ بقیہ تین فرزندوں نے علومِ دینیہ میں کمال تام حاصل کرنے کے لیے شاہ جہاں آباد (دہلی) میں مسند الوقت سید میاں نذیر حسین کے بارگاہِ علم وفضل کا رخ کیا اور اپنے زمانے کے جید فضلاء میں شمار کیے گئے۔
شیخ صاحب نے دوسری شادی محمد ابراہیم تاج پوری کی صاحبزادی سے کی۔ یہ خاتون لاولد رہیں ۔ تیسری شادی مظفر پور میں کی جن سے ایک بیٹا محمد یحییٰ اور ایک بیٹی پیدا ہوئیں ۔ چوتھی شادی غیر برادری میں کی جن سے ایک بیٹی پیدا ہوئیں ۔
شیخ احمد اللہ کے ایک صاحبزادے مولانا محمد یٰسین نے ان کی زندگی ہی میں عین جواں سالگی کے عالم میں داغِ مفارقت دیا، جس سے شیخ احمد اللہ کو اس درجہ صدمہ پہنچا کہ بینائی سے محروم ہو گئے اور محض دو برس بعد تقریباً ۱۳۰۰ھ میں لحد میں جا اترے۔ ان کی وفات پر شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی اپنے تعزیتی مکتوب میں لکھتے ہیں :
’’از عاجز محمد نذیر حسین بہ گرامی خدمت عالی مرتبت مولوی عبد الرحیم صاحب و مولوی عبد العزیز صاحب و مولوی عبد الوہاب صاحب سلمہم اللّٰه تعالیٰ۔
بعد السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کے واضح ہو، جان گھلانے والا حادثہ اعنی انتقال ایسے شخص زندہ دل کا جو نزولِ فیض کے مرکز تھے، سنت کے زندہ کرنے والے، بدعت کے مٹانے والے، ضعیف کے پناہ دینے والے تھے۔ اس واقعہ نے دوستوں کے دلوں کو بے حد صدمۂ غم میں مبتلا کر کے بھنور پریشانی میں ڈالا اور حادثۂ غم کا زہریلا ذائقہ چکھایا۔
جرعہ زہر حوادث جو شکر مینوشم از کف ساقی گردوں فلک مینائی
گر قلم بر سر غمنامہ دوراں آید خون، بدل آہ بلب اشک بمژگاں آید[1]
[1] ’’حادثات کے زہر کے گھونٹ کو شکر کی طرح پیتا ہوں اس گھڑی کے ساقی کے ہاتھ سے جو فلک پر نظر رکھتا ہے۔ اگر تقدیر کا قلم ہمارے وقت اور قسمت کے غم نامہ پر غالب آیا ہے تو دل سے خون، منہ سے فریاد اور پلکوں سے آنسو بھی جاری ہیں ۔‘‘