کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 614
کے لیے بے دریغ استعمال کیا۔ غریبوں کی مدد کرتے اور یتیموں کی کفالت۔ اللہ رب العزت نے بھی کمال درجہ کی عزت و ارجمندی عطا فرمائی۔ شیخ احمد اللہ کے پر نواسے (علامہ عبد العزیز کے نواسے) سید جلیل اختر، شیخ احمد اللہ کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’شیخ احمد اللہ ابتدائے عمر ہی میں والدین کے سایۂ عاطفت سے محروم ہو گئے تھے مگر، فضلِ ایزدی سے ایسی عظمت و شہرت حاصل ہوئی کہ اقران و اماثل میں بہت ہی ممتاز رہے۔ موروثی جائیداد صرف یک صد بیگھ اراضی لاخراج تھی، مگر اپنی ترقی و کوشش سے تیرہ چودہ ہزار سالانہ نقد آمدنی کی جائداد حاصل کی۔رعب داب کا یہ عالم تھا کہ اس زمانہ کے بڑے بڑے سورما نام سے کانپتے تھے، حتی کہ انگریز کوٹھی وال بھی ان کے خوف سے اس زمانہ میں لرزتے تھے۔ ’’ابتدائے زمانہ میں چند انگریزی کوٹھیوں کے منیجر بھی رہے تھے اور اس وجہ سے اکثر انگریزوں سے بالکل مساویانہ تعلقات تھے۔ پہلے آبائی مسلک حنفی کے پیرو تھے اور مولانا احمد اللہ صاحب مظفر پور کے معتقدین میں تھے۔ جب مولانا سید نذیر حسین صاحب دہلوی کی آمد و رفت رحیم آباد میں ہوئی تو ان کا مسلک اہلِ حدیث اختیار کیا۔ مذہبی امور میں بڑا جوش و خروش پیدا ہو گیا۔ اپنے فرزند مولانا عبد العزیز کی درخواست پر درختانِ تاڑ و کھجور کی آمدنی، جو کم و بیش دو ہزار سالانہ تھی، یک قلم ترک کردی۔ ’’ہر وقت علما و صلحا کی صحبت رکھتے تھے۔ غربا و یتامیٰ کی پرورش و پرداخت، تعلیم و تعلم حتیٰ کہ شادی بیاہ تک اپنے خرچ سے کرا دیتے تھے۔ ۱۸۷۱ء میں سعادتِ حج حاصل کی۔ غالباً ۸۰ سال کی عمر میں ۲ کاتک کو ۱۳۰۲ ف میں انتقال فرمایا۔ اپنی مسجد کے جنوبی فصیل کے پاس زیرِ درخت آنبہ محوِ خوابِ راحت ہیں ۔‘‘[1] شیخ احمد اللہ نے چار شادیاں کی تھیں ۔ پہلی شادی میر معشوق علی ساکن چک جہانگیر روضہ عرف گدو پور کی صاحبزادی سے کی جن سے چار صاحبزادے اور ایک بیٹی پیدا ہوئیں ۔ صاحبزادوں
[1] حدیقۃ الانساب (۱/ ۴۷، ۴۸)