کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 613
شاہجہاں آباد (دہلی)سے عالم ہو کر آئے ہیں ۔‘‘[1]
رحیم آباد کے اس دودمانِ صدیقی کے چشمۂ فیض نے صرف علاقہ ترہت ہی کو سیراب نہیں کیا، بلکہ اس خاندان کا احسان تمام پاک وہند کے افرادِ اہلِ حدیث پر بالعموم ہے، چنانچہ علامہ ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) کے ایک مقام پر رقمطراز ہیں :
’’رحیم آبادی خاندان کا احسان کوئی خاص رحیم آباد کے اردگرد والوں سے یا اپنے صوبہ سے مخصوص نہ تھا،بلکہ سارے ہندوستان کے اہلِ حدیثوں پر احسانِ عام تھا۔ اس خاندان کے مورثِ اعلیٰ شیخ احمد اللہ صاحب ہی وہ بزرگ ہیں جنھوں نے ہزار ہا روپیہ خرچ کر کے پریوی کونسل لندن میں مقدمہ جیتا تھا کہ اہلِ حدیث ہر مسجد میں اپنے طریق پر نماز پڑھ سکتے ہیں ، بلکہ حنفیوں کے امام ہو سکتے ہیں ، کیونکہ حسبِ فیصلہ شاہی ججان فرقہ اہلِ حدیث پکے اہلِ سنت والجماعت ہیں ۔ جماعت اہلِ حدیث اس خاندان کے اس عام احسان کا جتنا شکریہ ادا کرے کم ہے۔ غفر اللّٰه لھم ورحمھم‘‘[2]
آج کے افرادِ اہلِ حدیث شاید اس احسانِ عام کی اہمیت کو نہ سمجھ سکیں ، لیکن یہ واقعہ ہے کہ ایک زمانہ تھا جب اہلِ حدیث حضرات کے لیے عام مساجد کے دروازے بند ہوا کرتے تھے۔ اگر کسی مسجد میں کوئی ’’وہابی‘‘داخل ہوا کرتاتھا تو اسے جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا وہ افسوس ناک بھی ہوتیں اور ہماری اسلامی تاریخ کے لیے شرمناک بھی۔عوام الناس تو خیر علمائے اعلام بھی تعصب کے انتہائی مقام پر فائز ہوا کرتے تھے۔چنانچہ مولانا محمد لدھیانوی نے بطورِ خاص ایک کتاب ’’انتظام المساجد بإخراج أہل الفتن و المفاسد‘‘ تالیف فرمائی، جس کا مقصدِ وحید یہ تھا کہ اہلِ حدیث کو مساجد میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔اس زمانے میں متعددایسے واقعات رونما ہوئے جس میں اہلِ حدیث کو دھکے دے کر مساجد سے باہر نکالا گیا،ان کی تذلیل کی گئی۔کمال ہے کہ ایک مولوی صاحب نے ان واقعات کو فخریہ کتابی شکل میں شائع کیا۔
شیخ احمد اللہ تحریکِ مجاہدین کے بھی معاونِ خاص تھے۔ انھوں نے اپنی دولت کو دینی جہود و خدمات
[1] آئینہ ترہت (ص: ۲۸۰)
[2] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۷ اکتوبر ۱۹۲۷ء