کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 608
میں مولانا رحیم آبادی کے قائم کردہ تنظیمی نظم کو سنبھالنے میں بھی مولانا بہت بڑے معاون تھے۔
مولانا عبد النور کی وفات پر مولانا ثناء اللہ امرتسری نے ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) میں لکھا:
’’آہ ! مولانا عبد النور، رحیم آباد کی علمی بزم کی یادگار تھے۔ بڑے ذی علم اور جناب حافظ صاحب غازیپوری کے ارشد شاگرد۔ عرصہ دراز بیمار رہ کر انتقال کر گئے۔ إنا للّٰه و إنا إلیہ راجعون‘‘[1]
وفات:
مولانا عرصہ سے بیمار چلے آ رہے تھے، مگر اسی حالت میں مدرسے کے امور انجام دے رہے تھے۔ بالآخر شعبان ۱۳۵۷ھ/ ستمبر ۱۹۳۸ء کو مولانا کا بلاوا آگیا اور انھوں نے اجل کی راہ لی۔ إنا للّٰه و إنا إلیہ راجعون[2]
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۷ اکتوبر ۱۹۳۸ء
[2] مولانا عبد النور مظفر پوری کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو: ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۳ دسمبر ۱۹۰۹ء، اخبار ’’محمدی‘‘ (دہلی) ۱۵ جنوری ۱۹۳۹ء (مضمون نگار: مولانا محمد جونا گڑھی)، حسن البیان والے مولانا عبد العزیز رحیم آبادی (ص: ۱۴۰)، تذکرۃ المناظرین (۱/۴۴۳ تا ۴۴۵)، جماعت اہلِ حدیث کی تدریسی خدمات (ص: ۱۳۲، ۱۳۳)، مولانا نذیر عالم چمپارنی (ص: ۳۳)