کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 607
’’مولوی احمد رضا خان صاحب! آپ لیت و لعل میں وقت ضائع کر رہے ہیں ۔ میری چند تحریریں گئیں مگر کسی کا جواب نہ دیا، حالانکہ مُطالب آپ ہیں ۔ بہر حال آپ جس کو چاہیں کھڑا کر دیں ، میں احقاقِ حق کے لیے ہر وقت حاضر ہوں ، مگر شرط یہ ہے کہ جن کو کھڑا کریں ان کے بارے میں آپ ہمارے آدمیوں کے سامنے یہ لکھ دیں کہ اس شخص کی ہار جیت میری ہار جیت ہے اور ہم پھر کبھی اس مسئلہ میں مناظرہ نہ کریں گے اور اس کو تسلیم کر لیں گے اور دستخظ فرمائیں ، تب اس کے بعد باہم شروطِ مناظرہ طے کیے جائیں ۔ فقط عبد النور‘‘[1]
اس کاجواب دینے سے قبل ہی بریلوی پارٹی کی جانب سے اعلانِ مناظرہ کو تمام شہر آرہ میں چسپاں کر دیا گیا۔ جواب میں جماعت اہلِ حدیث آرہ نے بھی اعلانِ مناظرہ بنام مولانا احمد رضا خان بریلوی شائع کیا۔ جماعت اہلِ حدیث کی جانب سے مولانا عبد النور کو مناظر مقرر کیا گیا اور ثالث کے طور پر شاہ سلیمان پھلواروی، مولانا عبد الوہاب بہاری اور مولانا ثناء اللہ امرتسری کو نامزد کیا گیا۔ اعلانِ مناظرہ میں مولانا عبد النور کا ذکر حسبِ ذیل پیرایہ میں کیا گیا:
’’ہم لوگوں کی طرف سے جناب مولانا محمد عبد النور صاحب مدرس دوئم مدرسہ احمدیہ آرہ، جن کے علم و فضل کو آرہ کے احمد رضا خانی پارٹی کے لوگ خوب اچھی طرح جانتے ہیں جن کے نام سے برابر تحریریں ان کے پاس بھیجی جاتی ہیں ، متعین کیے گئے ہیں ۔‘‘[2]
معاملہ یہاں تک پہنچ گیا مگر اس پر شنوائی نہ ہو سکی۔ مجلسِ مناظرہ منعقد نہیں ہوئی۔ نہ فاضل بریلوی آرہ میں شریکِ مناظرہ ہوئے اور نہ ہی کسی دوسری جگہ میدانِ مناظرہ میں اترے۔
رحیم آبادی بزم علمی کی یادگار:
مولانا عبد النور ’’رحیم آبادی بزم علمی کی یادگار‘‘ تھے۔ مولانا عبد العزیز رحیم آبادی کے تلمیذِ خاص اور ان کے تربیت یافتہ تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جماعتِ مجاہدین سے بھی ان کا انسلاک تھا اور شمالی بہار
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۳ دسمبر ۱۹۰۹ء
[2] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۳ دسمبر ۱۹۰۹ء