کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 606
عبد النور نے براہِ راست فاضل بریلوی کو لکھا۔ مولانا عبد النور کے خط کی تاریخی اہمیت بھی ہے اور مولانا کی سوانح سے اس کا براہ راست تعلق بھی، اس لیے اس مکتوب کو ذیل میں نقل کیا جاتا ہے: ’’مولوی احمد رضا خان صاحب! جماعت اہلِ حدیث کی طرف سے بوساطت میرے جو چیلنج آپ کو دیا گیا تھا، اس پر آپ کے اس اصرار سے کہ کسی خاص شخص کا دستخط ہونا چاہیے، ہم کس کو مخاطب کریں گے؟ میں نے خود اپنا دستخط کر کے بھیجا جس کو بغرضِ جواب شب بھر کی مہلت پر آپ نے رکھ لیا؟ میں اس سے بہت خوش ہوا تھا کہ اب میری مراد بر آئے گی، مگر افسوس کہ جب صبح کو لانے کو میری طرف سے لوگ گئے اور جواب پونے آٹھ بجے صبح کو آیا تو دیکھ کر افسوس ہوا کہ رات بھر کی محنت میں جو جواب آیا بھی تو وہ جناب مولانا شاہ محمد عین الحق صاحب کے نام سے کوئی ایک دوسرا شخص عبد الاحد قادری نامی کا خط تھا۔ آپ خود انصاف فرمائیے کہ یہ اس کا جواب ہوا؟ اور یہ عذر کہ آپ مجھے نہیں جانتے اولاً تو یہ مانع جواب نہیں ، ثانیاً آپ کی استدعا کے مطابق تعیین شخصی کر دی گئی۔ ثالثاً آپ مولوی رحیم بخش سے دریافت کر لیجیے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ میں کون ہوں ، اس کے بعد امید ہے کہ آپ میری استدعا کو لیت و لعل میں نہ ڈالیں گے۔ عبد النور بوقت ۹ بجے صبح ۲۳ شوال ۱۳۲۷ھ‘‘[1] مولوی رحیم بخش آروی خلیفہ فاضل بریلوی نے کچھ عرصہ ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ میں مولانا عبد النور مظفر پوری سے بعض کتابیں پڑھی تھیں ۔ اس اعتبار سے مولوی صاحب، مولانا عبد النور کے شاگرد تھے۔ بہر حال مولانا عبد النور کے مذکورہ مکتوب کے بعد بھی یہی لیت و لعل چلتا رہا کہ شاہ عین الحق پھلواروی اپنے دستخط سے خط لکھ کر بھیجیں ، دوسری طرف شاہ عین الحق نے بھی فرمایا کہ جب خود فاضل بریلوی خط نہیں لکھتے تو میں کیوں لکھوں اور اگر وہ عبد النور کو نہیں جانتے تو میں بھی کسی عبد الاحد یا ظفر الدین کو نہیں جانتا۔ تاہم اگر وہ براہِ راست خط لکھیں تو میں اس کا جواب دوں گا۔ ان حالات میں مولانا عبد النور نے بھی ایک خط فاضل بریلوی کے نام لکھا جس میں مناظرے کے لیے ایک اچھی تجویز پیش کی۔ مکتوب حسبِ ذیل ہے :
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۳ دسمبر ۱۹۰۹ء