کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 604
3 مولانا زین العابدین ڈھاکوی 4 مولانا حکیم محمد ظہور آروی 5 مولانا محمد عثمان مدرس مدرسہ دار التکمیل 6 مولانا عبد الوہاب آروی 7 مولانا حافظ محمد صدیق مرولوی مظفر پوری 8 مولانا محمد ابراہیم دربھنگوی 9 مولانا عبید اللہ مدرس مدرسہ سبل السلام دہلی 10 مولانا زین الدین پیغمبر پوری 11 مولانا نذیر عالم چمپارنی 12 مولوی رحیم بخش آروی فنِ مناظرہ: مولانا عبد النور فنِ مناظرہ سے بھی تعلق رکھتے تھے اور اپنے زمانے کے اچھے مناظر تھے۔ ’’تذکرۃ المناظرین‘‘ میں مولانا مقتدیٰ اثری عمری نے مولانا کے ایک مناظرے کا ذکر کیا ہے جو سیگوڑی ضلع پٹنہ میں مشہور بریلوی عالم مولانا ظفر الدین بہاری سے آمین بالجہر کے مسئلے پر ہوا تھا۔ تین دن تک مجلسِ مناظرہ گرم رہی اور مولانا فائز المرام ہوئے۔ [1] مولانا احمد رضا بریلوی سے مناظرہ: مولانا احمد رضا خاں بریلوی کو گذشتہ صدی کے علمائے ہند میں ایک خاص امتیازی مقام حاصل ہے اور وہ یہ کہ مولانائے موصوف زبانِ طعن و تشنیع کو دراز کرنے اور اس درجہ دراز کرنے کے ماہر تھے کہ اپنے مخالف کو تکفیر کی گھاٹیوں تک پہنچا کر چھوڑتے تھے۔ جماعتِ اہلِ حدیث تو خیر ان کی ’’ممنونِ احسان‘‘ تھی ہی علمائے دیوبند و گنگوہ اور زعمائے ایجوکیشنل کانفرنس (علی گڑھ) و مسلم لیگ بھی ان کے کفریہ فتووں کے گزند خور تھے۔ مگر باوجود اس قدر شوخی کے خود کبھی میدانِ مناظرہ میں شرکت نہیں کرتے تھے۔ جب کبھی فضا مناظرے کے لیے ہموار ہوئی فاضل بریلوی نے اپنی راہ بدل لی۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں : ’’یہ ایک کھلی صداقت ہے کہ اعلیٰ حضرت میدانِ مناظرہ سے گھبراتے ہیں ۔ آپ کا سارا زور گالی گلوچ اور جہلا کے بل بوتے پر ہے اور بس۔ کوئی کیسا ہی صاحبِ فضل وکمال درخواستِ گفتگو کرے آپ جھٹ سے کسی چھوکرے کے دستخطی جواب لکھا کر خود حرفِ علّت کی طرح حذف ہو جاتے ہیں ۔ جس سے وہ سائل حیران ہو جاتا ہے کہ میں بولنے کس
[1] تذکرۃ المناظرین (۱/ ۳۴۴، ۳۴۵)