کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 603
احباب و تلامذہ کو تاکیداً ہدایت فرما گئے تھے کہ مدرسہ دار التکمیل حتی الامکان جاری رہے۔ چنانچہ مدرسہ مذکور بفضلہ جاری ہے۔‘‘[1]
یہ مولانا کا جذبۂ اخلاص ہی تھا کہ مدرسہ آج بھی جاری وساری ہے۔ محمد قمر اسحاق کے مطابق ابتدا میں یہاں ۴ اساتذہ اور ۲۵ طلابِ علم تھے جو بڑھ کر علی الترتیب ۱۵ اور ۲۵۰ تک ہو گئے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’مدرسہ دار التکمیل کی بنیاد ۱۹۲۲ء میں رکھی گئی۔ یہ مولانا عبد النور صاحب کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ آج کل مدرسے میں عالمیت تک کی تعلیم دی جاتی ہے۔ یہاں بہار کے دوسرے اضلاع اور نیپال کے طلبہ بھی تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ یہاں عصری علوم و فنی علومکا بھی نظم ہے۔ قرآن، حدیث، فقہ، سیرت، عربی پر خصوصیت کے ساتھ توجہ دی جاتی ہے۔ سالانہ جلسہ بچوں کی انجمن کی طرف سے ہوتا ہے۔ تقاریر و دستار بندی ہوتی ہے۔ مدرسہ میں ابھی ۱۷ کمرے ہیں ۔ ۱۰۰ طلبہ کے طعام و قیام کا نظم مدرسہ کرتا ہے۔‘‘[2]
انتہائی نا مساعد حالات میں بھی یہ مدرسہ کسی نہ کسی طرح دینی خدمات انجام دیتا رہا۔ بقول مولانا اشفاق سجاد سلفی:
’’شہر مظفر پور میں جماعت اہلِ حدیث کے افراد کالعدم ہونے کے باوجود جماعت کو نہ صرف باقی رکھنا بلکہ غیروں کی نگاہ میں تعلیم و تبلیغ اور عمارت کے لحاظ سے بلند اور با عزت رکھنا اور قابلِ فخر مقام عطا کرنا اس مدرسہ کا کارنامہ ہے۔‘‘[3]
تلامذہ:
مولانا نے ایک طویل عرصہ خدمتِ تدریس انجام دی۔ اس مدت کی طوالت نے ان کے تلامذہ میں بھی بڑی وسعت پیدا کی، تاہم ہمیں ان کے جن تلامذہ کے اسماء سے آگاہی ہو سکی، وہ حسبِ ذیل ہیں :
1 مولانا دیانت اللہ سمراوی بستوی 2 مولانا محمد اسحاق آروی
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۱۴ اکتوبر ۱۹۳۸ء
[2] ہندوستان کے اہم مدارس (۱/ ۴۶۸)، یہ کتاب دہلی سے ۱۹۹۶ء میں طبع ہوئی تھی۔
[3] مولانا نذیر عالم چمپارنی (ص : ۳۳)