کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 602
مولانا نے اپنی بقیہ پوری زندگی مدرسے کے لیے وقف کر دی۔ اس کی تعمیر و ترقی ہی مولانا کا مقصدِ حیات بن گیا۔ مولانا کو اپنے مدرسے کی از حد فکر تھی۔ اس دینی سرچشمۂ علم کی آبیاری ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ اس مدرسے کا شمار بہار کے قدیم اور اہم دینی مدارس میں ہوتا ہے۔
مولانا اشفاق سجاد سلفی لکھتے ہیں :
’’اس ادارہ کی تاسیس ۱۹۲۳ء مطابق ۱۳۴۳ھ میں مناظرِ اہلِ حدیث مولانا عبد النور بہاری کے ہاتھوں عمل میں آئی۔ اس ادارہ میں عالمیت تک تعلیم و تربیت کا نظم ہے۔ یہ مدرسہ، مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ سے منظور ہے، اساتذہ سرکاری تنخواہ پاتے ہیں ۔ مدرسہ میں ایک کتب خانہ بھی ہے جس میں ایک ہزار سے زائد دینی و علمی کتابیں موجود ہیں ۔ تعلیم و تربیت کے فروغ اور دعوت و تبلیغ کی اشاعت کے میدان میں اس ادارہ کی خدمات کثیر اور بے حد اہم ہیں ۔‘‘[1]
اپریل ۱۹۳۸ء میں مدرسے کا سالانہ جلسہ زیر صدارت مولانا محمد یوسف شمس فیض آبادی منعقد ہوا۔ عبد القیوم مظفر پوری نے اس جلسے کی روداد لکھی تھی، ان کے مطابق مولانا نے اپنی ضعیف العمری اور بیماری کے باوجود حسنِ انتظام سے نہایت کامیاب جلسہ کیا۔ وہ لکھتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ مولانا (عبد النور) کا سایہ ہم لوگوں پر تا دیر قائم رکھے اور صحتِ کامل عطا فرمائے۔ مولانا نے اپنا استعفاء بھی جلسہ میں پیش کیا کہ میں دو برس سے ریاحی درد میں مبتلا ہوں اور گشت سے مجبور ہوں ، اس وجہ سے مدرسہ کی آمدنی بہت کم ہو گئی ہے، بلکہ مدرسہ مقروض ہے، ہاں درس و تدریس میں کوئی نقصان نہیں ہے۔ ایسی حالت میں کسی دوسرے کو میری جگہ پر مقرر کیا جائے، مگر قوم نے نہیں مانا۔‘‘[2]
یہ مولانا کی ہر دلعزیزی تھی کہ ان کا استعفاء منظور نہیں کیا گیا۔ مولانا کو اپنی وفات تک مدرسے کی فکر لاحق رہی۔ مدرسے کے ایک مدرس مولوی محمد عثمان لکھتے ہیں :
’’مدرسہ دار التکمیل مظفر پور کے بانی مولانا عبد النور صاحب مرحوم رحلت سے قبل اپنے
[1] مولانا نذیر عالم چمپارنی (ص: ۲۹)
[2] مسلم اہلِ حدیث گزٹ (دہلی) جولائی ۱۹۳۸ء