کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 600
سند و اجازئہ حدیث کا شرف حاصل کیا۔ علم و فضل: مولانا کی علمی فضیلت مسلمہ تھی۔ مدرسہ ’’دار التکمیل‘‘ مظفر پور کے مہتمم اور مولانا کے تلمیذِ رشید مولانا زین العابدین ڈھاکوی لکھتے ہیں : ’’دار التکمیل کی یہ انتہائی خوش قسمتی ہے کہ اس کے صدر مدرس ( مولانا عبد النور صاحب) وہ مایہ ناز ہستی ہیں جن کا تمام علوم و فنون میں کامل و کہنہ مشق و محنتی و جفا کش ہونا سب کے نزدیک مسلم ہے۔‘‘[1] مولانا کی وفات پر مولانا محمد جونا گڑھی نے اپنے مختصر سے تعزیتی شذرے میں لکھا : ’’ مولانا عبد النور صاحب مظفر پوری .... جامع عالم تھے، معقول و منقول پر دسترس تھا۔ بہترین مدرس تھے۔ مناظر تھے۔ صاحبِ اثر تھے۔ مذہبی معاملات میں سخت تھے، با رعب اور پُر وقار انسان تھے۔ بہت سے مقامات پر درسِ حدیث و تفسیر میں عمر گزار دی۔ خدا انہیں بخشے اور مغفرت و رحمت اور جزائے خیر دے۔ آمین‘‘[2] تدریس: مولانا نے بھرپور تدریسی زندگی گزاری۔ پہلے پہل انھوں نے اپنی مادرِ علمی ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ آرہ میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔ کچھ عرصہ کلکتہ میں مقیم رہے تو وہاں ’’مدرسہ دار القرآن و الحدیث‘‘ کولوٹولہ میں تدریس کی ذمے داریاں نبھائیں ۔ پھر دربھنگہ میں ’’مدرسہ احمدیہ سلفیہ‘‘ میں خدمتِ تدریس انجام دی۔ اور آخر میں مولانا زین العابدین ڈھاکوی کے ساتھ مل کر مظفرپور میں ’’مدرسہ دار التکمیل‘‘ کی بنیاد رکھی، پھر ان کی پوری زندگی اسی مدرسے کی تعمیر و ترقی کے لیے وقف رہی۔ مجلہ ’’اہل السنۃ‘‘: قیامِ کلکتہ میں مولانا نے کلکتہ کے مشہور اہلِ حدیث تاجر عبد الوہاب صاحب کی خواہش پر ایک
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۷ دسمبر ۱۹۳۴ء [2] اخبار ’’محمدی‘‘ (دہلی) ۱۵ جنوری ۱۹۳۹ء