کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 595
احباب و رفقاء: مولانا کے دیگر قریبی احباب و رفقاء میں مولانا محمد یوسف جعفری صادق پوری (نزیل کلکتہ)، حکیم عبد اللہ لکھنوی، مولانا عبد الجبار عمر پوری، مولانا ضیاء الرحمن عمر پوری، مولانا ابو النعمان عبد الرحمن آزاد مؤی، مولانا عبد الرحیم دانا پوری، مولانا عبد الصمد دانا پوری وغیرہم شامل ہیں ۔ اولاد: مولانا کی اولاد میں ان کے دو صاحبزادوں کے بارے میں ہمیں علم ہو سکا۔ایک مولانا ابو محمد محفوظ جو اپنے والد کے علمی جانشیں و وارث تھے۔ موصوف ہی نے حضرت میاں نذیر حسین محدث دہلوی کی وفات پر ’’حسرۃ العالم بوفاۃ المحدث العالم‘‘ کے نام سے ایک کتاب مرتب کی جس میں میاں صاحب کی وفات پر ان کے تلامذہ و عقیدت مندوں نے جو تاثرات نظم و نثر میں پیش کیے تھے، انھیں یکجا کیا گیا۔ یہ کتاب میاں صاحب کے احوال پر ان کی وفات کے بعد پہلی کتاب ہے۔ مولانا کے دوسرے صاحب زادے حافظ ابو غالب محمد معصوم تھے، جو بڑے ذہین، طباع اور نیک سیرت تھے۔ لیکن افسوس گلشنِ حیات کی صرف ۱۵ بہاریں دیکھ کر وفات پا گئے۔ مولانا اس سانحے پر بہت دل گرفتہ ہوئے لیکن تائیدِ ایزدی کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا۔ اپنے مرحوم صاحب زادے کی یاد میں مولانا نے ’’البیان لتراجم القرآن‘‘ جیسی بلند پایہ کتاب لکھ کر شائع کی۔ وفات: مولانا کے ایک عقیدت مند محمد یعقوب (لال باغ، دیناج پور) نے ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) میں مولانا کی خبرِ وفات کی اطلاع دیتے ہوئے لکھا: ’’آہ! مولانا حافظ ابو محمد عبد اللہ صاحب چھپراوی نزیل ہاوڑہ کلکتہ جو علمی تبحر کے ساتھ عبرانی زبان کے بھی ماہر تھے اور نصاریٰ کے ساتھ مناظرہ کے لیے اپنی نوعیت میں بے مثل تھے۔ یکم رمضان المبارک کو فوت ہو گئے۔ انا للہ۔‘‘[1] مولانا نے بھرپور علمی زندگی گزاری۔ انھوں نے قرآنِ کریم کی بھی گراں قدر خدمت انجام
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۲۱ فروری ۱۹۳۰ء