کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 592
جواب میں لکھتے ہیں :
’’قرآن شریف میں لاٹھی ڈالنے اور پھر اس کے اژدہا ہو جانے کا ذکر نہیں ہے۔ یہ نہ تو حضرت موسیٰ ہی کو پہلے سے معلوم تھا اور نہ جادوگر ہی اس سے واقف و خبردار تھے۔ ہاں اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کے معجزہ کی تصدیق کے لیے البتہ ایسا واقع عجب اپنے قدرتِ کاملہ سے ظاہر کر دیا، پس واقعہ بعد الوقوع کو قبل از واقعہ بیان کرنا گویا الہام و وحی کو لقمہ دینا ہے ع
تجھ سا کوئی زمانہ میں معجز بیان نہیں آگے تری مسیح کے منہ میں زباں نہیں [1]
ڈپٹی صاحب {وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَارِ السَّمُومِ } کا ترجمہ ’’اور ہم جنات کو آدم سے بھی پہلے لو کی گرمی سے پیدا کر چکے تھے‘‘ کرتے ہیں ۔ مولانا کی گرفت کی لطافت ملاحظہ ہو:
’’ظاہر ہے کہ لو اور گرمی دونوں از قبیل اوصاف و اعراض ہیں کوئی ان میں ذات و جوہر نہیں ، اور مسلم ہے کہ مادہ من قبیل الجواھر ہوا کرتا ہے نہ از قسم اعراض بحت و اوصاف محض پس بنائً علیہ اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے کہ لطیف آگ سے پیدا کیا۔‘‘[2]
مولانا نے اپنی تائید میں شاہ عبد القادر دہلوی اور امام رازی کو بھی پیش کیا ہے۔
{إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ (3) عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ } کا ترجمہ ڈپٹی صاحب بایں الفاظ کرتے ہیں : ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کچھ شک نہیں کہ منجملہ اور پیغمبروں کے تم بھی پیغمبر ہو (اور دین کے) سیدھے رستے پر ہو۔‘‘ اس پر مولانا کی دقتِ نظری ملاحظہ ہو:
’’دین کی قید محض بے موقع بلکہ خلافِ ادب ہے، کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم دین و دنیا دونوں کے سیدھے رستے پر تھے۔‘‘[3]
ڈپٹی صاحب نے سورت واقعہ کی آیت {وَإِنَّهُ لَقَسَمٌ لَوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ } کے حاشیے پر لکھا ہے:
[1] رفع الغواشی (ص: ۱۵۷)
[2] رفع الغواشی (ص: ۱۹۵)
[3] رفع الغواشی (ص: ۲۵۶)