کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 591
ڈپٹی صاحب {الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا } کا ترجمہ ’’جو ہماری آیتوں کا مشغلہ بنا رہے ہوں ‘‘ کرتے ہیں ۔ مولانا فرماتے ہیں :
’’چونکہ مشغلہ کا استعمال خیر و شر دونوں میں ہوتا ہے، اس لیے اس کا واضح اور مطلب خیز وہی ترجمہ ہے جو مولانا رفیع الدین صاحب نے لکھا ہے کہ ہماری آیتوں میں جھگڑتے ہیں ، یا جیسا کہ عام تفسیروں میں لکھا ہے: ہمارے آیتوں سے مسخرا پن کرتے ہیں ۔‘‘[1]
ڈپٹی صاحب سورۃ الانعام کی آیت {يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ } کے حاشیے پر لکھتے ہیں :
’’دنیا میں آدمی اور جنات یعنی شیاطین دو قسم کی مخلوق ہیں ۔‘‘
مولانا گرفت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’جنات کے معنے عموماً شیاطین بیان کرنا صحیح نہیں ، کیونکہ جنات میں اچھے برے دونوں ہوتے ہیں ، جو برے ہیں وہی شیاطین ہیں نہ کہ سب جنات شیاطین ہیں ۔‘‘[2]
مولانا نے اپنی تائید میں امام رازی کی ’’تفسیر کبیر‘‘ سے طویل اقتباس بھی نقل کیا ہے جسے ہم بخوفِ طوالت نظر انداز کرتے ہیں ۔
ڈپٹی صاحب نے {ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ } کا بڑا ہی غیر مانوس ترجمہ کیا ہے: ’’عرش پر جا برا جا۔‘‘ مولانا نے اس پر بڑے دل چسپ پیرائے میں گرفت کی ہے:
’’سورۂ طہٰ اور سورۂ فرقان میں بھی آپ نے اس جملہ کا یہی ترجمہ بلکہ ’’عرشِ بریں پر جا براجا‘‘ لکھا ہے، لیکن یہ عربی و فارسی و بھاکھا زبان کا بیچ میل ترجمہ ایسا ہی ہے جیسے کمخواب میں ٹاٹ کا پیوند یا ٹاٹ پر موبخ کی بخیہ۔ ع
زندہ ہیں تجھ سے نام مسیح و کلیم کے دیکھا نہیں بشر کہیں اس بول چال کا[3]
ڈپٹی صاحب نے {قَالُوا يَا مُوسَى إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ } کے ترجمے میں لکھا ہے: ’’جادوگروں نے موسیٰ سے کہا کہ اے موسیٰ یا تو تم اپنی لاٹھی سب کے سامنے لا ڈالو کہ اژدہا بن جائے۔‘‘ مولانا
[1] رفع الغواشی (ص: ۱۴۴)
[2] رفع الغواشی (ص: ۱۴۸)
[3] رفع الغواشی (ص: ۱۵۱، ۱۵۲)