کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 590
 ڈپٹی صاحب نے {قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ } کا ترجمہ ’’ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کے آگے جھکو‘‘ کیا ہے۔ مولانا گرفت کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ڈپٹی صاحب یہاں اور اس کے سوا اور مقاموں پر بھی سجدہ کے معنے مطلق جھکنا اور آیت {وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ } وغیرہ میں رکوع کے معنے بھی مطلق جھکنا ہی لکھتے ہیں ۔ پس ان کو لازم تھا کہ رکوع اور سجدہ دونوں کا ترجمہ علیحدہ علیحدہ لکھتے اور دونوں جھکنے میں مابہ الامتیاز کو ظاہر کرتے، اور اگر یہ نہ کرتے تو انہیں دونوں لفظوں ہی کو بلا ترجمہ رہنے دیتے، کیونکہ یہ دونوں لفظیں عموماً اس قدر مشہور ہیں کہ ان کے ترجمہ کی ضرورت ہی نہیں ۔‘‘[1]  ڈپٹی صاحب {هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ } کا ترجمہ ’’وہ تمھارے دامن کے جگہ ہیں اور تم ان کی چولی کے جگہ‘‘ کرتے ہیں ، پھر حاشیہ میں لکھتے ہیں : ’’ایک چیز ایک چیز کو ایسی لازم ہو کہ دوسرے سے جدا نہ ہو سکیں تو کپڑے کے ضلع میں اس لزوم کو ہمارے ہاں یوں تعبیر کرتے ہیں کہ دونوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے، اسی محاورہ کے لحاظ سے لباس کا ترجمہ چولی دامن کا کیا گیا ہے۔‘‘ مولانا جواب میں لکھتے ہیں : ’’قرآن ایسے متبرک و ضروری کتاب کے مترجم کو چاہیے کہ سیدھے سادے طور پر اس کے مطلب کو ایسے واضح طور پر ادا کر دے کہ عام فہم ہو جائے نہ یہ کہ کسی خاص شہر کے ایسے مختص محاورہ میں اس کو مقید کرے کہ اس کے لیے بھی اس کو ایک حاشیہ لکھ کر اس کے توضیح و تشریح کی ضرورت پڑے۔ پس بنائً علیہ ڈپٹی صاحب کو لازم تھا کہ ضلع جگت کو چھوڑ کر صاف طور پر مطلب قرآنی ادا فرما دیتے، جیسا کہ مولانا شاہ عبد القادر صاحب نے ترجمہ کیا ہے: وہ پوشاک ہیں تمھاری اور تم پوشاک ہو ان کی۔ اور ترجمہ رفیعہ میں ہے: وہ پردہ ہیں واسطے تمھارے اور تم پردہ ہو واسطے ان کے۔‘‘[2]
[1] رفع الغواشی (ص: ۳۹،۴۰) [2] رفع الغواشی (ص: ۱۰۴)