کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 589
یہ درست ہے کہ مولانا چھپروی ہماری علمی دنیا میں ڈپٹی نذیر احمد کی طرح غیر معمولی شہرت کے حامل نہیں ، لیکن فریقِ مخالف کے بالمقابل ان کی مقبولیت کی کمی سے ان کے غیر معمولی کارنامے پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔ انھوں نے جو گرفت کی ہے وہ با وزن اور پُر دلائل ہے۔ مولانا معصومی لکھتے ہیں : ’’رفع الغواشی میں ڈپٹی صاحب کے ترجمہ و حواشی کا جائزہ بہت ہی مبسوط و مدلل پیرائے میں لیا گیا ہے۔ مولف نے جہاں احکام و تعلیماتِ قرآنیہ کے بیناتی پہلوؤوں کو حتی المقدور پیشِ نظر رکھ کر اس ترجمہ کی جانچ اور متعلقہ حواشی کے فوائد و نکات مندرجہ کی چھان پھٹک کی ہے، وہاں اصولِ ترجمہ نگاری اور زبان و بیان کے ضابطوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا، بلکہ ضوابط ترجمہ نگاری کو معیار قرار دے کر ترجمہ و حواشی متعلقہ کی لسانی خوبیوں اور خامیوں پر بے لاگ تبصرہ کیا ہے۔ ڈپٹی صاحب کی ’’بے نظیر شخصیت‘‘ کے مقابلہ میں مولانا حافظ عبد اللہ چھپروی کی غیر معروف حیثیت سے اس کارنامہ کی اہمیت پر مطلق اثر نہیں پڑتا۔‘‘[1] ڈپٹی صاحب کے ترجمہ قرآن پر مولانا چھپروی نے جو گرفت کی ہے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کی مثالیں یہاں پیش کی جائیں ۔ تنقید سے قطع نظر اس سے مولانا کی قرآن فہمی اور لسانی صلاحیتوں کا اظہار مقصود ہے۔  ڈپٹی صاحب نے {مَشَوْا فِيهِ } کا ترجمہ ’’تو اس (کی چاندنی) میں (کچھ) چلے‘‘ کیا ہے۔ مولانا لکھتے ہیں : ’’اس کی روشنی یا چمک چاہیے، کیونکہ چاندنی چاند کے سایہ کو کہتے ہیں نہ بجلی کے چمک کو۔ مولوی اوحد الدین بلگرامی نفائس اللغات میں لکھتے ہیں : چاندنی بکسر نون و سکون تحتانی معروف بمعنی روشنی ماہ انتہیٰ۔ اور ناسخ شاعر کہتا ہے ع تو چاند ہے سایہ چاندنی ہے کوسوں تک بلکہ روشنی ہے اسی لیے مولانا شاہ ولی اللہ صاحب نے ترجمہ کیا ہے: راہ روند دراں روشنی۔‘‘[2]
[1] ’’قرآن مجید کی تفسیریں چودہ سو برس میں ‘‘ (ص: ۲۴۹) [2] رفع الغواشی (ص: ۳۸)