کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 588
اکثر اغلاط کو تسلیم بھی کر لیا ہے۔‘‘[1]
ڈپٹی نذیر احمد کے اوّلین سوانح نگار مولوی افتخار عالم مارہروی نے ’’حیات النذیر‘‘ کے حصہ پنجم میں ’’ترجمۃ القرآن پر اعتراض‘‘ کے زیرِ عنوان مولانا اشرف علی تھانوی ’’اصلاح ترجمہ دہلویہ‘‘ کا ذکر تو کیا ہے، لیکن ’’رفع الغواشی‘‘ اور اس کے فاضل مصنف کے نام کی کہیں صراحت نہیں کی، تاہم یہ اشارہ ضرور ملتا ہے:
’’مولانا اشرف علی صاحب کے سوا بنگالے کے کوئی اور مولوی ہیں ، انھوں نے بھی اعتراضات کا کوئی رسالہ تیار کیا ہے، مگر وہ ہماری نظر سے نہیں گزرا۔نظر سے گزرتا تو اس کی زیارت بھی ہمیں کچھ نہ کچھ ضرور فائدہ دیتی۔‘‘[2]
مارہروی صاحب نے ’’رفع الغواشی‘‘ کی زیارت بے شک نہ کی ہو،[3] مگر خود ڈپٹی صاحب اس کتاب کی تالیف سے روزِ اول ہی سے واقف تھے۔ اس سلسلے میں مولانا چھپروی کے رفیقِ خاص مولانا محمد یوسف رنجورؔ جعفری نے ڈپٹی صاحب سے خط کتابت بھی کی تھی۔[4]
’’رفع الغواشی‘‘ جب پہلے پہل مطبع سے طبع ہو کر منظرِ شہود پر آئی تو اس کا پہلا نسخہ فاضل مولف نے ڈپٹی صاحب ہی کی خدمت میں روانہ کیا، لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ فرماتے ہیں :
’’پہلا نسخہ اس کا بذریعہ رجسٹری ڈپٹی صاحب کے خدمت میں بھیجا گیا، مگر انھوں نے شکریہ وغیرہ کا کیا ذکر، اس کی رسید تک نہ بھیجی ع
ہوئی اس مہروش کو حال سے میرے نہ آگاہی
اگرچہ آسمان تک میری فریاد جگر پہنچی[5]
[1] ’’شحنہ ہند‘‘ ۲۴ ستمبر ۱۹۰۲ء بحوالہ البیان لتراجم القرآن (ص: ۴۵)
[2] ’’حیات النذیر‘‘ (ص: ۳۵۹)
[3] لیکن مولانا ابو محفوظ الکریم معصومی کا خیال اس کے برعکس ہے، فرماتے ہیں : ’’مارہروی کا بیان بجائے اصل واقعہ کے تجاہل عارفانہ کی صنعت پر مبنی ہے۔‘‘ (قرآن مجید کی تفسیریں چودہ سو برس میں ۔ ص: ۲۴۹)
[4] رفع الغواشی (ص: ۳۲۰۔۳۲۳)
[5] البیان لتراجم القرآن (ص: ۴۸)