کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 587
بھی وصول کرا دوں گا۔ جہاں تک ہو سکے مولوی صاحب موصوف سے جواب کے لکھوانے میں جلدی کریں ۔ و السلام۔‘‘[1]
اس مکتوب گرامی سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیّد نذیر حسین دہلوی کو اپنے اس تلمیذِ رشید کی علمی و ادبی صلاحیتوں پر مکمل اعتماد تھا۔
ڈپٹی نذیر احمد دہلوی سے اختلاف:
مولانا چھپروی کی علمی زندگی کا سب سے بڑا معرکہ ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کے ساتھ ہوا۔ ڈپٹی صاحب کا ترجمۂ قرآن جب شائع ہوا تو علمی و دینی حلقوں میں اس کی بڑی دھوم ہوئی۔ خود ڈپٹی صاحب کو اپنے ترجمہ قرآن پر اپنی محاورہ دانی اور ادبیت کے سبب بہت ناز تھا۔ ان کے ایک عقیدت مند مدیر ’’وکیل‘‘ (امرتسر) نے تو یہاں تک لکھ دیا:
’’جس صاحبِ مقدور اور پڑھنے والے کے پاس مولوی نذیر احمد کی مترجم حمائل شریف نہ ہو مجھ کو اس کے اسلام میں شک ہے۔‘‘[2]
جہاں اس دور کے نیچری حلقوں میں یہ ترجمہ بہت مشہور ہوا وہیں اس دور کے اکابر اہلِ علم کو اس ترجمہ قرآن کریم میں کئی مقامات پر سخت اختلاف بھی ہوا، چند علماء نے اس پر با قاعدہ تحریری گرفت بھی کی، جن میں مولوی گل محمد خان منگلوری سہارن پوری، مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا عبد اللہ چھپروی شامل ہیں ۔ ان میں مولانا چھپروی کا کام سب سے وقیع ہے۔ ان کی کتاب بھی ضخیم ہے اور گرفت بھی نہایت مضبوط۔ مولانا احمد حسن شوکتؔ میرٹھی مدیر ’’شحنہ ہند‘‘ لکھتے ہیں :
’’اس مترجم قرآن (ڈپٹی نذیر احمد کا مترجم قرآن) کے اغلاط میں علماء نے مستقل کتابیں تصنیف فرمائی ہیں ، چنانچہ رفع الغواشی عن وجوہ الترجمہ و الحواشی مولفہ مولانا المولوی ابو محمد عبد اللہ صاحب چھپراوی .... بسیط و مفصل قابلِ ملاحظہ ہے۔ شمس العلماء صاحب کے نئی روشنی والے ہوا خواہوں نے بھی آج تک ان اغلاط کی تصحیح نہیں فرمائی نہ جواب دیا، بلکہ
[1] ’’البیان لتراجم القرآن‘‘ (ص: ۳۰)
[2] ’’وکیل‘‘ (امرتسر) ۱۲ فروری ۱۹۰۰ء بحوالہ البیان لتراجم القرآن۔