کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 585
’’ضیاء السنۃ‘‘ میں برابر شائع ہوا کرے گی۔‘‘[1]
مولانا کے جمع کردہ کچھ مناجات ’’ضیاء السنۃ‘‘ میں شائع ہوئے۔ ’’ضیاء السنۃ‘‘ کے متعدد شمارے ہماری نظر سے گزرے ہیں ، قیاس غالب یہی ہے کہ زیادہ مناجات کی اشاعت کی نوبت نہ آسکی۔ یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ یہ مناجات کتابی شکل میں شائع ہو سکے یا نہیں ۔
’’رسالہ‘‘: مولانا ابو المکارم محمدعلی مؤی نے زانیہ تائبہ کے مکان کی آمدنی کو تعمیرِ مسجد میں صرف کرنے کے جواز میں ایک فتویٰ دیا تھا، جس کا رد مولانا عبد اللہ چھپروی نے لکھا تھا۔[2] افسوس اس کی تفصیلات سے آگاہی نہ ہو سکی۔
مولانا کے کچھ متفرق فتاوے بھی ملتے ہیں جو مختلف مجموعوں کی زینت ہیں ۔ ’’فتاویٰ نذیریہ‘‘ میں بھی مولانا چھپروی کے تحریر کردہ تین فتاوے ملتے ہیں ۔ اسی طرح مولانا کا ایک فتویٰ بابت مسجد ضرار ہے جوایک منظوم رسالہ ’’مجموعہ اشعار ہدایت آثار‘‘ کے آخری صفحات (۲۵۔۳۳) پر مرقوم ہے۔ یہ مجموعہ ۱۳۱۰ھ میں طبع ہوا تھا۔ مولانا معصومی نے ان متفرق فتاووں کو بھی جوابات استفتاء کے عنوان سے مولانا کی مستقل تصنیف قرار دیا ہے۔ ظاہر ہے ان متفرق تحریروں کو مولانا کی باقاعدہ تصنیف قرار نہیں دیا جا سکتا۔
J.R Blumhardt نے Catalogue of Hindustani Printed Books in the library of the British Museum میں حافظ محمد عبد اللہ کے تحت مولانا کی چند کتابوں کا ذکر
کیا ہے۔[3] انہی میں ۱۶۷۳ء کی مطبوعہ ایک کتاب ’’عشرہ کاملہ‘‘ بھی ہے، تاہم ہمیں دیگر ذرائع سے اس کی توثیق نہیں ہو سکی کہ یہ حافظ ابو محمد عبد اللہ چھپروی کی تصنیف ہے، ممکن ہے کوئی دوسرے حافظ عبد اللہ مراد ہوں ۔ واللّٰه أعلم بالصواب
اسی طرح مولانا عین الدین مٹیا برجی کی ایک کتاب ’’إزھاق الإحقاق في مسألۃ
[1] ماہنامہ ’’ضیاء السنۃ‘‘ (کلکتہ) ذیقعدہ ۱۳۲۰ھ
[2] ’’فرحۃ الاخیار بتفصیل جواب الاشتہار ‘‘ ( ص :۲)
[3] Catalogue of Hindustani Printed Books in the library of the British
Museum: 212