کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 584
یہ کتاب ہادی المطابع کلکتہ سے ۱۳۱۹ھ میں طبع ہوئی۔ تعدادِ صفحات: ۳۶۸۔ اسے اپنے دور میں بڑی مقبولیت ملی۔ اسی مقبولیت کے پیشِ نظر اس کا دوسرا حصہ تیار کرنے کا خیال بھی مؤلف کے پیشِ نظر ہوا۔ جیسا کہ علامہ شمس الحق عظیم آبادی ہی کے ایک دوسرے مکتوب سے ظاہر ہوتا ہے، فرماتے ہیں :
’’الحمدللہ و المنہ کہ رفع الغواشی کا دوسرا حصہ بھی تیار ہو رہا ہے، اللہ تعالیٰ آپ کے عمر و کام میں برکت عطا فرمائے۔‘‘[1]
تاہم دوسرے حصے کے بارے میں بالیقین نہیں کہا جا سکتا کہ وہ منصہ شہود پر آ سکی یا نہیں ۔
13 ’’البیان لتراجم القرآن‘‘: یہ مولانا کا گراں قدر علمی کارنامہ ہے۔ قرآنِ کریم کے تراجم کی تاریخ، مختلف زبانوں میں کیے گئے تراجم کی معلومات، متعدد ترجموں کی خوبیوں اور خامیوں کی نشاندہی، اپنے موضوع پر اوّلین گنجینۂ تحقیق ہے۔ اس میں کل تراجم قرآن کا ذکر ہے، جو اس دور کے محدود وسائل کے پیشِ نظر خود ایک غیر معمولی کارنامہ ہے۔ اردو پریس کلکتہ سے ۱۳۴۶ھ میں طبع ہوئی، تعدادِ صفحات: ۱۰۹۔
اس کا ضمیمہ بھی شائع ہوا جس میں مولانا اشرف علی تھانوی کی بیان القرآن کی جلد اول کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ ضمیمہ صرف آٹھ صفحات پر محیط ہے، تاہم مولانا نے جو گرفت کی ہے وہ بڑی مدلل ہے۔
14 ’’فہرس الأحادیث‘‘: مولانا کتبِ ستہ کی احادیث کی فہرست مرتب کرنا چاہتے تھے، تاکہ بوقتِ ضرورت بسہولت ان احادیث کو تلاش کیا جا سکے۔ اس کا ایک حصہ تیار بھی ہو چکا تھا۔ مولانا کے تلمیذِ رشید مولانا عین الدین مٹیا برجی نے اس پر تعارفی مضمون بھی لکھا تھا جو ’’ضیاء السنۃ‘‘ میں شائع ہوا۔ مولانا اس کتاب کو مکمل کر سکے یا نہیں ؟ یہ کہنا مشکل ہے۔
15 ’’مجموعہ مُناجات‘‘: مولانا نے اکابر علماء و زہاد کے مناجات پر مشتمل ایک مجموعہ مرتب کیا تھا۔ مولانا عبد الجبار عمر پوری لکھتے ہیں :
’’مولانا حافظ حکیم ابو محمد عبد اللہ صاحب چھپراوی نے علمائے متبحرین و فضلائے کاملین کی مناجات کا ایک مجموعہ مرتب کیا ہے، اس میں سے ایک ایک مناجات ان شاء اللہ تعالیٰ
[1] البیان لتراجم القرآن (ص: ۴۰)