کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 583
۱۳۰۹ھ بمطابق ۱۸۹۱ء سے قبل طبع ہوا ہو گا، کیونکہ ’’البیان لفصاحۃ القرآن‘‘ (ص: ۳۷) میں اس کا حوالہ ملتا ہے۔ 10 ’’البیان لفصاحۃ القرآن‘‘: یہ کتاب بھی دیسی پادری حسن علی کے جواب میں ہے۔ قرآن پاک کی شانِ فصاحت و بلاغت ایسی معجزانہ ہے جس نے اپنے نزول سے لے کر آج تک مخالفین کو دم بخود کر رکھا ہے۔ پادری حسن علی لکھنؤ سے تعلق رکھنے والے ایک دیسی پادری تھے، انھوں نے ’’منقحۃ الإسلام‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں قرآن کریم کی بلاغت و فصاحت پر بزعم خود اعتراضات کیے۔ مولانا نے اس کا بھرپور علمی جواب دیا اور پادری صاحب کی مفسدانہ تحریر کا زبردست رد کیا۔ مولانا ابو محفوظ کریم معصومی لکھتے ہیں : ’’ہمارے مولف نے یہ رسالہ نہایت مدلل و مفصل قلمبند کر کے شائع کیا اور پادری کی مفسدہ پردازی کا ابطال کیا۔ یہ رسالہ بھی علمی و تحقیقی انداز، عربی زبان و ادب کے رموز و اسرار سے گہری واقفیت و وسعت مطالعہ و معلومات کا لاجواب نمونہ ہے۔ جس میں مولف نے مناظرانہ روش سے ہٹ کر انتہائی سنجیدہ و محققانہ شان کے ساتھ معترض کے جہل و نادانی کا پردہ فاش کیا ہے۔‘‘[1] انتظامی پریس کان پور سے ۱۳۱۰ھ میں طبع ہوئی۔ تعدادِ صفحات: ۵۶۔ 11 ’’تلخیص سلک البیان في مناقب القرآن‘‘: مولانانے مشہور مستشرق بیزالسن کی کتاب کا اردو ترجمہ و تلخیص کیا ہے۔ کتاب ہنوز ہماری نظر سے نہیں گزری۔ 12 ’’رفع الغواشي عن وجوہ الترجمۃ و الحواشي‘‘: یہ کتاب ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کے اردو ترجمہ قرآن پاک پر نقد و تبصرہ ہے۔علامہ شمس الحق عظیم آبادی اس کتاب سے متعلق فرماتے ہیں : ’’نہایت عمدہ طور سے یہ کتاب لکھی گئی ہے اور اپنے باب میں یہ کتاب لاجواب و بے مثل ہے۔‘‘[2]
[1] ’’قرآن مجید کی تفسیریں چودہ سو برس میں ‘‘ (ص: ۲۴۵) [2] البیان لتراجم القرآن (ص: ۴۰)