کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 582
تقاضا کیا کہ یہ روایت تو موضوع ہے لہٰذا اس کی تحقیق بھی ضروری ہے۔ مولانا بڑے دل چسپ پیرائے میں لکھتے ہیں : ’’واضح ہو کہ جب میں پنڈت صاحب کا یہ دندان شکن جواب دے چکا تو مجھ کو بعض مولوی صاحبوں نے گھیرا کہ حدیث رد شمس تو ضعیف بلکہ موضوع ہے، ناچار مجھ کو اس پر مجبور کیا کہ کچھ ان کی بھی خبر لوں اور قدرے اس حدیث کی بھی تحقیق کروں ورنہ اس تحقیق کو اس بحث میں ملانا گولر کے پھول کو نیم کی جڑ میں لگانا ہے، لیکن ضرورت بھی ایسی بن دیکھی بلا ہے کہ خواہ مخواہ ’’الضرورات تبیح المحظورات‘‘ پر عمل کرنا ہی پڑتا ہے، پس یہ حضرات بھی اب ذرا خیال فرمائیں اور بگوش ہوش سنیں ۔‘‘[1] مولانا کی تحقیق کے مطابق یہ روایت درست ہے۔ تاہم محقق علما، مثلاً: ابن الجوزی، ابن تیمیہ، ابن کثیر وغیرہم اس روایت کو موضوع قرار دیتے ہیں ۔مولانا کی یہ کتاب مطبع مفید عام آگرہ سے طبع ہوئی۔ تعدادِ صفحات: ۲۴۔ 7 ’’درۃ التاج في بیان المعراج‘‘: مولانا سے سوال کیا گیا تھا: ’’حکمائے فرنگ نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ آسمان کوئی شے مجسم نہیں ، فقط ایک حدِ نظر و مدِ بصر ہے پس بتلائیے کہ محمدیوں کے پیغمبر کی معراج کہاں ہوئی؟‘‘[2] مولانا نے اس سوال کا علم و دلیل کی رو سے جواب دیا ہے۔ کتاب کی طباعت مطبع مفید عام آگرہ سے ہوئی۔ تعدادِ صفحات: ۱۲۔ 8 ’’دفع الأغالیط في شأن فارقلیط‘‘: عیسائیوں نے بائبل میں مذکور فارقلیط کی تعیین میں طرح طرح سے مغالطات دیے ہیں ۔ مولانا نے ان مغالطات کا رد کیا ہے۔ کتاب کی طباعت ۱۳۲۰ھ سے قبل ہوئی تھی۔ 9 ’’منقلہ للمصقلہ‘‘: پادری حسن علی کے جواب میں یہ مختصر شاید چند ورقی رسالہ ہے، جو یقینا
[1] القول الہمس لرد الشمس (ص: ۶) [2] درۃ التاج في بیان المعراج (ص: ۲)