کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 579
کا بھی عمدہ ذوق رکھتے تھے۔ مسکینؔ تخلص تھا۔ اردو، فارسی، عربی اور انگریزی کے علاوہ سنسکرت اور عبرانی جیسی زبانوں سے بھی واقفیت تھی۔ فنِ مناظرہ کے بھی ماہر تھے۔ بائبل پر گہری نظر رکھتے تھے۔ نصرانیوں کے ساتھ مناظرے کے لیے خاصی شہرت رکھتے تھے۔ نثر کا خاص سلیقہ رکھتے تھے۔ ’’البیان لتراجم القرآن‘‘ میں قرآنی تراجم کا تعارف کرایا ہے، یہ اپنے موضوع پر لکھی گئی پہلی کتاب ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کے ترجمہ قرآنِ کریم پر مولانا چھپروی نے جو نقد کیا ہے اس سے ان کی ادبی صلاحیتوں کا اظہار ہوتا ہے۔ الغرض مولانا اس دورِ واپس کی بڑی جامع علم و فن شخصیت تھے۔
تدریس:
تکمیلِ علم کے بعد مولانا نے کلکتہ اقامت اختیار کی۔ مولانا کے اوراقِ حیات کے منتشر اجزا کو دیکھنے کے بعد ہمارا قیاس ہے کہ مولانا نے کلکتہ پہنچنے سے قبل شاید جون پور اور چھپرہ میں بھی محدود مدت کے لیے تدریسی خدمات انجام دی تھیں ۔ تاہم عملی تدریسی زندگی کے لیے مولانا کا آخری انتخاب کلکتہ ٹھہرا۔ یہاں مولانا نے خود کو علمی و تدریسی خدمات کے لیے وقف کر دیا۔ ان کی عملی زندگی کا بیشتر حصہ یہیں بسر ہوا۔ دینی و تدریسی خدمت کے ساتھ ساتھ تشخیص و معالجہ کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ تاہم طب کی یہ خدمت ثانوی درجے میں رہی۔ کلکتہ کے جن مدارس میں خدمتِ تدریس انجام دی، ان میں سے دو کے نام معلوم ہو سکے۔ یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ صرف انہی دو اداروں سے مولانا کی وابستگی رہی یا ان کے علاوہ بھی کسی درس گاہ میں مولانا نے خدمت انجام دی۔ پہلا ’’مدرسہ محمدیہ صولتیہ‘‘ کلکتہ ہے اور دوسرا ’’مدرسہ مٹیا برج‘‘کلکتہ۔
تلامذہ:
مولانا کی خدمتِ تدریس طویل عرصہ پر محیط رہی ہے۔ اس عرصے میں یقینا ان کے مستفیدین کا ایک بڑا حلقۂ ہوگا۔ تاہم ان کے شاگردوں میں چند ہی نام دریافت ہو سکے، جو حسبِ ذیل ہیں :
1 مولانا ابو الخیر محمد مکی بن سخاوت علی جون پوری
2 مولانا محمد معروف بن محمد جنید بن سخاوت علی جون پوری
3 مولانا عین الدین مٹیا برجی