کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 578
لکھنؤ تشریف لے گئے جہاں مفتی محمد یوسف فرنگی محلی سے اخذِ علم کیا۔ حدیث کی تحصیل دہلی میں سیّد نذیر حسین محدث دہلوی سے کی۔ فنِ طب میں بھی دستگاہ رکھتے تھے، تاہم ان کے اساتذۂ طب سے واقفیت نہ ہو سکی۔
شیخ الکل سیّد نذیر حسین دہلوی کی خدمت میں :
شیخ الکل السیدمیاں نذیر حسین دہلوی کی خدمت میں کب حاضر ہوئے اور کتنی مدت ان کے پاس مقیم رہے؟ اس کی تفصیل تو نہیں ملتی، تاہم حضرت میاں صاحب کے حلقۂ درس سے مولانا کی وابستگی کا یہ دور حتمی طور پر ۱۲۹۱ھ سے قبل کا رہا ہو گا۔[1] کیونکہ مولانا چھپروی نے اپنے تلمیذِ رشید مولانا ابو الخیر محمد مکی کے لیے اصولِ حدیث پر ایک کتاب ’’ھدیۃ المکیۃ‘‘ تالیف فرمائی تھی جو ۱۲۹۱ھ میں طبع ہوئی۔ گویا مولانا ۱۲۹۱ھ میں اپنی تدریسی و تصنیفی زندگی کا آغاز کر چکے تھے۔
شیخ الکل سے مولانا نے درسِ قرآن و حدیث لیا۔ اس درس کی کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے مولانا چھپروی اپنی کتاب ’’رفع الغواشی‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’ایک زمانہ میں میں بھی دہلی میں بقیۃ السلف و حجۃ الخلف مولانا السیّد محمد نذیر حسین صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ کے درس میں حاضر تھا اور اسی ترجمہ (شاہ عبد القادر کا ترجمہ قرآن کریم) کا درس ہوتا تھا، پھر مولانا اور تمامی حضار پر جن میں مبتدی اور منتہی اور بنگالی و پنجابی و سندھی و حیدر آبادی سب ہوتے تھے، ایسی شیفتگی اور لذت حاصل ہوتی تھی کہ یہی جی چاہتا تھا کہ دو ایک رکوع اور ہوتا، لیکن چونکہ مولانا اس ترجمہ کو کتبِ احادیث کا مقدمہ خصوصاً صحیح بخاری کا دیباچہ درس قرار دیتے تھے، اس لیے دو ہی ایک رکوع پر بس فرماتے تھے۔‘‘[2]
جامعیتِ علمی:
مولانا بڑے جامع العلوم تھے۔ تفسیر، حدیث، فقہ، لغت، ادب اور طب سے واقف تھے۔ شعر و سخن
[1] مولانا ابو محفوظ الکریم معصومی کے خیال سے اس دورِ وابستگی کا عہد ۱۳۰۴ھ سے قبل کا ہے۔ (’’قرآن مجید کی تفسیریں چودہ سو برس میں ‘‘ ص: ۲۴۰)، تاہم ہم نے اپنے شواہد پیش کر دیے ہیں ۔
[2] رفع الغواشی (ص: ۱۵، ۱۶)