کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 577
مولانا حافظ ابو محمد عبد اللہ چھپروی
(وفات: یکم رمضان المبارک ۱۳۴۸ھ/ ۳۱ جنوری ۱۹۳۰ء)
بیسویں صدی کے اوائل کا کلکتہ اپنے جلو میں متعدد نادرۂ روزگار نوابغ کا اجتماع رکھتا تھا۔ یہاں کے دینی، علمی، ادبی اور سیاسی حلقے زندگی سے بھرپور تھے۔ بنگال کے مختلف شہروں سے منتخبِ روزگار اشخاص نے کلکتہ کا رخ کر لیا تھا اور معاملہ صرف بنگال کے شہروں تک ہی محدود نہ رہا تھا بلکہ بہار و یوپی کے بھی متعدد اکابر کلکتہ میں اقامت گزیں ہوگئے تھے۔ ایسے ہی منتخبِ روزگار اشخاص میں ایک قابلِ ذکر ہستی مولانا حافظ ابو محمد عبد اللہ چھپروی کی ہے، جو اپنے دور کے جید فاضل، حاذق طبیب، شعر و ادب سے واقف، مقارنۂ مذاہب و ادیان کے عالم اور ماہرِ لسانیات تھے۔ بقول مولانا ابو محفوظ الکریم معصومی:
’’ان کے بعض کارنامے نہ صرف دینی بلکہ ادبی نقطہ نظر سے بھی اردو نثر کے شعبہ انتقادیات میں لائقِ تحسین اضافہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔‘‘[1]
مولد و مسکن:
مولانا حافظ ابو محمد عبد اللہ بن حافظ فتح محمد بن حاجی شیخ رمضان علی کا مولد چھپرہ (سارن) کے اطراف میں واقع ایک مقام ’’کوپاسموتا‘‘ ہے۔ مولانا کی تاریخِ ولادت سے آگاہی نہ ہو سکی۔
ابتدائی حالات اور کسبِ علم کے مختلف مراحل:
مولانا کے ابتدائی حالات سے واقفیت نہیں ہوئی۔ ان کے ابتدائی دور کے اساتذہ کے بارے میں بھی معلومات نہیں ملتیں ۔ قرآن کریم کے حافظ تھے۔ اپنے اطراف کے علما سے استفادے کے بعد
[1] ’’قرآن مجید کی تفسیریں چودہ سو برس میں ‘‘ (ص: ۲۳۹)