کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 574
مغربی چمپارن کے دیگر تلامذۂ کرام
مولانا ابو السادات عبد الرشید بتیاوی
مولانا ابو السادات عبد الرشید بتیاوی بہار کے جلیل القدر عالم و مناظر تھے۔ ان کا تعلق موجودہ ضلع مغربی چمپارن کے مشہور شہر بتیا کے علاقے جھکا سے ہے۔ ’’الحیاۃ بعد المماۃ‘‘ میں فہرست تلامذہ میں ان کا نام موتیہاری کے ذیل میں ’’مولوی عبدالرشید بتیا‘‘ درج ہے۔ [1]
اس وقت چمپارن مشرقی و مغربی دو حصوں میں منقسم ہے۔ موتیہاری، مشرقی چمپارن کا مشہور شہر ہے اور بتیا مغربی چمپارن کا۔
مولانا عبدالرشید کے تفصیلی حالات دستیاب نہیں ہو سکے، تاہم ہمیں ان کی ایک کتاب اپنے محترم دوست ضیاء اللہ کھوکھر (گوجرانوالہ) کے کتب خانے سے دستیاب ہوئی ہے۔ جس کا نام ’’برہانِ اعظم‘‘ ہے۔ بنارس کے ایک عیسائی (دیسی پادری) ابو صالح نے دینِ اسلام کی تردید میں ایک کتاب ’’دینِ قیم‘‘ لکھی تھی۔ مولانا نے اس کا جواب ’’برہانِ اعظم بجواب دینِ قیم‘‘ کے عنوان سے دیا ہے۔ آخر میں اپنی کتاب کے حوالے سے مولانا نے عیسائیوں کو مخاطب کر کے یہ اعلان کیا ہے:
’’بفضلہ تعالیٰ ایک ہفتہ میں برہان اعظم بجواب دین قیم ابو صالح کرسٹی کی تحریر پایا۔ اب اگر کوئی کالی کرسٹی یا گورا یا پادری عالم اس رسالہ برہان اعظم کی کسی ایسی بات کے غلط ہونے کا دعویٰ کر کے جو اس کے دین کی نسبت ہے تو میں اصل میں اس شرط پر رہا دوں کہ جماعت عیسائیوں کی مجھے اس بات کا یقین دلا دے کہ اگر وہ بات اس کی کتاب سے نکل آوے تو ان کو دینِ عیسوی چھوڑنے میں کوئی عذر نہ ہو گا، ورنہ میں اپنا عزیز وقت
[1] الحیاۃ بعد المماۃ (ص: ۳۴۶)