کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 571
اور دہلی لے گیا۔ مشاہیرِ زمانہ سے استفادہ کیا۔ اس کے بعد ’’دار العلوم‘‘ دیوبند تشریف لے گئے اور وہاں کتبِ حدیث و فقہ کی تحصیل کی۔ اس کے بعد دوبارہ دہلی تشریف لائے اور یہاں شیخ الکل سیّد نذیر حسین محدث دہلوی سے کتبِ حدیث کی تحصیل کی۔ تکمیلِ علم کے بعد: مولانا اپنے وطنِ مالوف جھمکا تشریف لائے، جہاں ان کے چچا مولانا عبد الکریم مسلمؔ نے ’’مدرسہ اسلامیہ‘‘ کے نام سے دینی درس گاہ قائم کررکھی تھی، وہیں تقریباً ۱۲ برس تک تدریس کے فرائض انجام دیے۔ علامہ شمس الحق عظیم آبادی سے ملاقات: مولانا علی منظر کو علمِ حدیث سے خصوصی دل چسپی اور شغف تھا۔ ان کے اس شغف کا شہرہ پھیلا تو بہار کے مشہورِ زمانہ محدث علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے انھیں پٹنہ مدعو کیا۔ دونوں اکابرِ علم کے مابین علمِ حدیث و رجال کے مختلف موضوعات زیرِ بحث آئے۔ علامہ عظیم آبادی، مولانا کے حدیثی ذوق سے بہت متاثر ہوئے۔[1] تصنیفی خدمات: مولانا نے کئی کتابیں لکھیں ، افسوس بیشتر ضائع ہوگئیں اور جو مرحلۂ طباعت سے گزریں بھی تو اب بہ آسانی دستیاب نہیں ۔ حسبِ ذیل کتابوں سے آگاہی ہو سکی: 1 ’’قراءۃ فاتحہ خلف الامام‘‘: بعض دیوبندی اکابر، مثلاً: مولانا محمود الحسن دیوبندی سے دہلی میں مولانا کا فاتحہ خلف الامام کے مسئلے پر مباحثہ ہوا تھا۔ اسی پر مولانا نے یہ کتاب لکھی جو مولانا کی زندگی ہی میں طبع ہوئی۔ 2 ’’اظہارِ حقیقت‘‘: جھمکا میں ایک غیر مسلم عورت مشرف باسلام ہوئی، لیکن جب وہ اپنے میکے آتی تو ہندوانہ رسم و رواج پر قائم رہتی تھی۔ مولانا عبد العزیز رحیم آبادی نے اس کا نکاح ایک خراسانی مجاہد سے کرا دیا تھا۔ مولانا علی منظر اور دیگر جھمکاوی علماء نے بالاتفاق یہ فیصلہ دیا کہ مذکورہ عورت
[1] ماہنامہ ’’محدث‘‘ (بنارس) جولائی ۲۰۰۹ء