کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 566
کا بطریقِ احسن انتظام کیا جا سکے۔ یہ مولانا کا جذبۂ اخلاص ہی تھا کہ مدرسہ ان کی وفات کے بعد بھی ہنوز اپنی دینی خدمات انجام دے رہا ہے۔ محمد قمر اسحاق کے مطابق ابتدا میں یہاں اساتذہ کی تعداد ۶ اور طلبا کی ۱۵۰ تھی، جو بڑھ کر علی الترتیب ۱۳ اور ۶۵۶ ہوگئی۔ ۱۷۵ طلبا کے قیام و طعام اور دیگر وظائف کی سہولت یہاں میسر ہے۔ مدرسے کو عوامی چندہ اور اطراف کے مخلص تاجروں کا تعاون حاصل ہے، نیز سرکاری تعاون اور اوقاف کی جائیداد سے کچھ رقم میسر آتی ہے۔[1] تبحرِ علمی: مولانا جس طرح علومِ قرآن و حدیث کے ماہر تھے، اسی طرح منطق و فلسفہ اور معقولات میں بھی درک رکھتے تھے۔ مدرسہ دار السلام سکٹا میں مولانا کا سلسلۂ تدریس جاری تھا جس کی دھوم بالخصوص پورے شمالی بہار میں تھی۔ اسی زمانے میں مولانا آزاد سبحانی، جو فنِ معقولات کے بہت بڑے ماہر عالم تھے، ’’مدرسہ دار التکمیل‘‘ مظفر پور تشریف لائے ہوئے تھے۔ ا نھیں اطلاع ملی کہ چمپارن میں جھمکا علماء و فضلاء کی بستی ہے اور وہاں ’’مدرسہ دار السلام‘‘ سکٹا میں مولانا ابو سعید جامع منقول و معقول تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں ۔ مولانا ابو سعید سے ملنے کی غرض سے مولانا آزاد سبحانی جھمکا تشریف لائے۔ مدرسہ دار السلام میں ان کی ملاقات ہوئی۔ علمِ منطق و فلسفہ میں گفتگو شروع کی۔ چار روز تک یہ مباحثہ جاری رہا۔ آخر میں مولانا آزاد سبحانی مولانا ابو سعید سے بہت متاثر ہوئے اور یہ شعر پڑھا: ہر بیشہ گماں مبر کہ خالیست شاید کہ پلنگ خضتہ باشد[2] مناظرہ: مولانا کو میدانِ مناظرہ میں بھی کمال حاصل تھا۔ مختلف دور دراز مقامات پر مولانا مناظرے کے لیے تشریف لے گئے۔ پاکستان میں لاہور اور کراچی، بنگلہ دیش میں ڈھاکہ اور رنگ پور، مغربی بنگال میں صید پور، دیناج پور اور مرشد آباد میں مولانا کے مناظرے ہوئے۔ بعض فروعی مسائل میں اپنے ہم مسلک علماء سے مولانا کے مباحثے ہوئے، جن میں مولانا عبد العزیز رحیم آبادی بھی شامل ہیں ۔ ایک مناظرہ حافظ
[1] ہندوستان کے اہم مدارس (۱/ ۳۳۴، ۳۳۵)، یہ کتاب ۱۹۹۶ء میں طبع ہوئی تھی۔ [2] دھاری دار چیز کو خالی (کوئی اور چیز) گمان نہ کر، شاید کہ چیتا سویا ہوا ہو۔‘‘