کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 562
صوفی عبد اللہ مرحوم کے مطابق جو لوگ جماعتِ مجاہدین کی اعانت کا ستون تھے، حافظ شریف صاحب ان میں سے ایک تھے۔[1] ۱۳۴۰ھ میں نیپال کے علاقہ ترہر میں بیمار ہوئے اور وہیں داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ بہوری بیر گنج میں مدفون ہوئے۔ مولانا کے عالی قدر صاحبزادگان حافظ خلیل الرحمن، مولانا عبد الوحید اور مولانا جمیل الرحمن اپنے دور کے باکمال افراد میں سے تھے۔ مولانا نے تحریکِ مجاہدین سے انسلاک کیا اور اپنی پوری زندگی روپوشی کی حالت میں تبلیغی فرائض انجام دیتے ہوئے گزاری، یہی وجہ ہے کہ ان کی زندگی کے بیشتر پہلو نمایاں نہ ہو سکے۔ تاہم ان کی بے لوث تبلیغی و جہادی خدمات ہماری گمشدہ تاریخ کا قیمتی اثاثہ ہیں ۔[2] 
[1] سرگزشت مجاہدین (ص: ۶۵۴) [2] مولانا حافظ شریف احمد جھمکاوی کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو: تراجم علمائے اہلِ حدیث (۱ /۱۲۱۔ ۱۲۲)