کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 559
کتابوں کے علاوہ مولانا کی کئی کتابوں کا ذکر کیا ہے، تاہم وہ مولانا کے رشحۂ قلم سے نہیں بلکہ ان کے اخلاف کے قلم سے ہیں ۔ ہمارا انحصار مولانا محمد حنیف مدنی کی مہیا کردہ معلومات پر ہے جنھوں نے اس خاندان کے تمام اکابر اہلِ علم کے حالات پر تفصیلی مقالہ لکھا تھا جو ماہنامہ ’’محدث‘‘ بنارس میں قسط وار شائع ہوتا رہا۔ خود انھوں نے اپنے مقالے کے لیے جھمکاوی خاندان کے اہلِ علم اور ان کے ورثا سے معلومات حاصل کیں ۔ اس لیے ان کے بیان کو بہر طور ترجیح حاصل ہو گی۔ وفات: مولانا عبد الرشید ایک عالم، مبلغ اور مجاہد تھے۔ اپنی پوری زندگی نہایت عزیمت و استقامت کے ساتھ گزاری۔ انھوں نے ۱۹۲۰ء میں وفات پائی اور جھمکا میں مدفون ہوئے۔[1] ازدواج و اولاد: مولانا نے مختلف اوقات میں کل چار نکاح کیے۔ چاروں حرم سے اللہ نے انھیں اولاد کی نعمت عطا کی۔ اللہ نے ۸ بیٹے اور ۳ بیٹیاں عطا کیں ۔ صاحبزادوں کے نام حسبِ ذیل ہیں : مولانا ابو سعید، مولانا ابو الخیر، مولاناابو البرکات، مولانا عبد الباری، نور غنی، علی حسین، نور الحسنین اور مولانا سادات علی۔ مولانا کے دو صاحبزادوں مولانا ابو سعید اور مولانا ابو الخیر نے شیخ الکل سیّد میاں نذیر حسین دہلوی سے اخذِ علم کی سعادت حاصل کی۔ ان دونوں کے حالات آیندہ صفحات میں اپنے محل پر آئیں گے۔ مولانا عبد الباری: مولانا عبد الرشید کے فرزند مولانا عبد الباری جید عالم اوربہار کے مشہور سیاسی زعیم تھے۔ ۱۹۱۲ء میں پیدا ہوئے۔ والد کی وفات کے وقت ان کی عمر تقریباً ۸ برس تھی۔ مدرسہ اسلامیہ جھمکا میں اپنے بھائی مولانا ابو الخیر کے زیر نگرانی تعلیم حاصل کی۔ دار الحدیث رحمانیہ دہلی سے تکمیلِ علم کیا۔ سیاسیات سے انھیں بڑی دل چسپی تھی، رجحانِ خاطر کانگریس کی جانب تھا۔ ۱۹۵۷ء میں وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے ان
[1] مولانا عبد الرشید جھمکاوی کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو: ماہنامہ ’’محدث‘‘ (بنارس) جولائی ۲۰۰۸ء (مضمون نگار: مولانا محمد حنیف مدنی)، تراجم علمائے اہلِ حدیث (۱ /۲۱۷۔۲۱۹)، دیوان گلشنِ ہدایت (ص: ۸)