کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 558
کرتے۔ یہاں ایک صاحب شاہ اسحاق مختار رہتے تھے جو عقیدتاً اہلِ حدیث تھے۔ عیسائی مشنریز کی ہرزہ سرائی ان سے برداشت نہ ہو سکی۔ وہ مولانا عبد الرشید سے مدد کے طالب ہوئے۔ مولانا اپنے چند شاگردوں کے ساتھ بتیا تشریف لائے۔ پادری عبد الحق جوالا سنگھ سے مناظرہ ہوا۔ عیسائی پادری کو شکست ہوئی اور وہ لاجواب ہوکر دہلی فرار ہو گیا۔ وہاں اس وقت مولانا کے صاحبزادے مولانا ابو سعید زیرِ تعلیم تھے انھوں نے پادری عبد الحق کی خبر لی۔ پادری صاحب نے وہاں سے بھی نکل جانے میں عافیت سمجھی اور لاہور چلے گئے۔ مولانا نے سناتن دھرم کے عالموں اور صوفیوں سے بھی مناظرے کیے۔ بتیا ہی میں ایک مناظرہ احناف سے کیا۔ جس میں آمین بالجہر، فاتحہ خلف الامام، رفع الیدین کے مباحث شاملِ مناظرہ تھے۔ اس مناظرے کی روداد مولانا نے ’’جنگ و جدال بتیا‘‘ کے عنوان سے لکھی۔ تصانیف: مولانا کی بیشتر کتب ضائع ہوگئیں ۔ جن کتابوں کو مرحلۂ طباعت سے گزرنا نصیب ہوا، وہ بھی اب دستیاب نہیں ہوتیں ۔ ہمیں مولانا کی تین کتابوں کا علم ہو سکا، جن کی تفصیل حسبِ ذیل ہے: 1 ’’جنگ و جدال بتیا‘‘: مولانا نے بتیا میں احناف سے مناظرہ کیا تھا، یہ اسی مناظرے کی روداد ہے۔ یہ کتاب جھمکا کے ایک رئیس شیخ فرزند علی کے اہتمام سے طبع ہوئی تھی، مگر اب دستیاب نہیں ۔ 2 ’’ نیّر اعظم‘‘: یہ کتاب مولانا نے ردِّ عیسائیت میں لکھی۔ مولانا کے ایک عقیدت مند حاجی دلاور صاحب کی مساعی سے طبع بھی ہوئی تھی، تاہم اب دستیاب نہیں ہوتی۔ 3 ’’تحفہ رشیدیہ‘‘: اس میں اہل اللہ اور درویشوں کے حالات تحریر کیے ہیں ۔ ضخیم کتاب ہے۔ مرحلۂ طباعت سے نہیں گزر سکی، تاہم اس کا مخطوطہ مولانا کے فرزند مولانا عبد الباری کے پاس محفوظ تھا، اب نہیں معلوم کیا صورت ہے۔ مولانا کی تحریر کردہ کتابوں کی تعداد تو اس سے یقینا زیادہ ہے، مگر افسوس بیشتر کتب دست بردِ زمانہ کی نذر ہو گئیں ۔جناب خالد حنیف صدیقی نے اپنی کتاب ’’تراجم علمائے اہلِ حدیث‘‘ میں مذکورہ بالا