کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 557
کتابیں مولانا عبد الرحمن بقاؔ غازی پوری[1] اور دیگر علماء سے پڑھیں ۔ آخر میں سیّد میاں نذیر حسین محدث دہلوی کے بابِ علم پر دستک دی اور ان سے سندِ حدیث حاصل کی۔
تکمیلِ علم کے بعد:
مولانا جب دہلی میں حضرت میاں صاحب محدث دہلوی سے کسبِ علم کر کے فارغ ہوئے تو وہیں دہلی میں ان کی شادی ایک شریف خانوادے میں ہو گئی۔ مولانا کے سسر بھی عالم و فاضل اور مجاہد آدمی تھے۔ جماعت مجاہدین کی طرف سے ان کا دورہ چمپارن اور سارن کے علاقوں میں ہوتا تھا، مولانا اکثر ان دوروں میں ان کے ہمرکاب ہوتے تھے، یہی وجہ تھی مولانا کی اخلاق و شرافت سے متاثر ہوکر انھوں نے اپنی صاحبزادی مولانا عبد الرشید کے حبالۂ عقد میں دے دی۔
تبلیغ و ارشاد:
مولانا دعوت و ارشاد کے مردِ میدان تھے۔ تبلیغ و اشاعتِ دین ہی ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ اکثر دور دراز اور کوردہ دیہاتوں میں تبلیغ کی غرض سے جایا کرتے تھے۔
مناظرہ:
فنِ مناظرہ کے ماہر تھے۔ اپنی زندگی میں کئی مناظرے کیے اور کامیاب رہے۔ ایک زمانہ تھا جب انگریزی حکومت کے زیرِ اثر عیسائی مشنریز بڑی سرگرمی سے تبلیغِ عیسائیت میں مصروفِ عمل تھیں ۔ ہندو اور مسلمان بھی دنیاوی فوائد کے پیشِ نظر عیسائیت قبول کر رہے تھے۔ ایسے میں علمائے حق کی بہت بڑی تعداد میدانِ عمل میں آئی۔ عیسائی پادریوں سے مناظرے کیے اور ان کے دلائل کو رد کیا۔ ان مناظروں کا مبارک نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائی مشنریز اپنے مقاصد میں بری طرح ناکام رہیں ۔
بہار کے ضلع موتیہاری کا ایک موضع بتیا بھی ان مشنریز کا ہدف تھا۔ یہاں علماء کی کمی تھی کوئی جواب دینے والا نہ تھا۔ عیسائی پادری تبلیغی جلسے منعقد کرتے اور اسلام و قرآن پر شدید اعتراضات
[1] مولانامحمد حنیف مدنی نے مولانا عبد الرشید پر لکھے گئے اپنے سوانحی مضمون (مطبوعہ ماہنامہ ’’محدث‘‘ (بنارس) جولائی ۲۰۰۸ء) میں گو کہ مولانا عبد الرحمن کا ذکر بحیثیت استاد کیا ہے، تاہم ہمیں اس پر تامل ہے، کیونکہ مولانا عبدالرشید، مولانا بقاؔ غازی پوری سے بلحاظ عمر ۲۵، ۲۶ برس بڑے ہیں ۔ واﷲ أعلم