کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 556
مولانا عبد الکریم مسلمؔ کا عظیم کارنامہ ’’دیوان گلشن ہدایت‘‘ ہے۔ اللہ نے اسے بڑی مقبولیت عطا کی۔اسے بہار کی ’’مسدس حالی‘‘ سمجھنا چاہیے۔ گھروں کی پردہ نشیں عورتوں کو بھی اس کے اشعار ازبر ہوا کرتے تھے۔ اس کی طباعت مولانا کی زندگی میں نہ ہو سکی۔ بعد از وفات مولانا عبد الرشید نے اس کی طباعت دہلی سے کروائی۔ لیکن قبل از طباعت ہی اس کے اشعار زبانِ زد عام ہو چکے تھے۔ شمالی بہار، نیپال اور مشرقی یوپی میں یہ دیوان بہت معروف ہے۔ مولانا عبد الکریم کی ایک کتاب ’’قاتل الفجار‘‘ کا ذکر بھی ملتا ہے۔ مولانا عبد الکریم نے جھمکا میں ’’مدرسہ چشمہ رحمت‘‘ کی بنیاد رکھی جو آج بھی قائم ہے۔ مولانا کی وفات ۱۳۰۸ھ اور ایک روایت کے مطابق ۱۳۱۲ھ میں ہوئی۔[1]
اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین صاحبزادے اور تین یا چار صاحبزادیاں عطا کیں ۔ صاحبزادوں کے نام یہ ہیں : مولانا عبد الرشید، مولانا حافظ شریف احمد اور حافظ محمود۔ابتدائی دو صاحبزادوں نے حضرت میاں نذیر حسین دہلوی سے اکتسابِ علم کا شرف حاصل کیا۔مولانا عبد الکریم مسلمؔ کے نواسے مولانا منظور الحق جھمکاوی و بلی رام پوری علمی دنیا میں معروف اور اپنے عہد کے باکمال عالم، مبلغ، مؤلف اور واعظ تھے۔ ذیل میں مولانا عبد الرشید کے حالات پیشِ خدمت ہیں ۔
ولادت:
مولانا عبد الرشید کی ولادت ۱۲۵۵ھ میں افغانستان کے شہر کابل کے کالی پہاڑی کے مقام پر ہوئی، جہاں ان کے عظیم المرتبت والد مجاہدین کی معیت میں مصروفِ جہاد تھے۔
تحصیلِ علم:
مولانا نے ابتدائی تعلیم اپنے والدِ گرامی سے حاصل کی، لیکن اعلیٰ تعلیم کا آغاز خاصی تاخیر سے ہوا۔ لکھنؤ میں علامہ عبد الحی فرنگی محلی سے بعض کتبِ درسیہ پڑھیں ۔ ’’سنن ترمذی‘‘ نواب صدیق حسن خاں والیِ بھوپال سے پڑھی۔ قاضی مبارک، میر زاہد، توضیح و تلویح، مسلم الثبوت اور فنِ ریاضی کی کئی
[1] مولانا عبد الکریم مسلمؔ جھمکاوی کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو: ماہنامہ ’’محدث‘‘ (بنارس) نومبر و دسمبر ۲۰۰۷ء (ازقلم : مولانا محمد حنیف مدنی)، دیوان گلشن ہدایت (ص: ۷)، تراجم علمائے اہلِ حدیث (۱ /۲۷۲۔۲۷۴)