کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 552
جھمکا، مغربی چمپارن
جھمکا، بہار کے ضلع مغربی چمپارن کا مشہور مقام ہے۔ ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے مطابق مغربی چمپارن کی آبادی ۴۰ لاکھ کے قریب تھی، جس میں مسلمانوں کا تناسبِ آبادی ۲۲ فیصد کے قریب تھا۔
مولانا عبد الہادی جھمکاوی نے قبولِ اسلام کے بعد اسی مقام کو اپنی اقامت کے لیے پسند فرمایا۔ مولانا عبد الہادی مجاہدانہ خصائص کے حامل بزرگ تھے۔ ان کی دینی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ ان کے بعد ان کے اخلاف بھی کئی پشتوں تک دین کی خدمت میں حصہ لیتے رہے اور ہنوز لے رہے ہیں ۔ یہ مولانا ہی کا اخلاص تھا جس کی بدولت مغربی چمپارن کا یہ غیر معروف مقام تحریکِ جہاد اور تاریخِ اہلِ حدیث کا ایک مرکز بن گیا۔ اسی مقام سے رشد و ہدایت کے متعدد چشمے پھوٹے جو کئی نسلوں کی جہد و سعی کا نتیجہ ہے۔
مولانا عبد الہادی جھمکاوی:
مولانا عبد الہادی اس خاندان کے مورثِ اعلیٰ تھے۔ ۱۲۰۵ھ میں چھپرہ کے موضع زیرہ رینی کے کائستھ خانوادے میں پیدا ہوئے۔ گھر میں دولت و ثروت کی ریل پیل تھے۔ آزاد جمہوریہ ہند کے پہلے صدر راجندر پرشاد کا تعلق بھی اسی خاندان سے تھا۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انگریزی کی طرف متوجہ ہوئے اور اس میں خوب مہارت حاصل کی۔ کتبِ قوانین کا بنظر غائر مطالعہ کیا اور وکالت کا امتحان دینے کی غرض سے پٹنہ وارد ہوئے۔ مولانا عبد الحی حسنی نے علامہ شمس الحق عظیم آبادی کی ’’تذکرۃ النبلاء‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہیں ان کی ملاقات امیر المجاہدین سیّد احمد شہید اور شاہ محمد اسماعیل شہید سے ہوئی۔[1] سیّد احمد شہید کے پند و نصائح اور شاہ اسماعیل کی ترغیب سے سیّد احمد کے دستِ مبارک پر بیعت کر کے حلقۂ بگوشِ اسلام ہوئے اور قافلۂ مجاہدین کے ہمرکاب ہو گئے۔
[1] نزہۃ الخواطر (ص: ۱۰۳۷)