کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 550
ان پر غالب آیا۔ ان کا شمار دیوبند کے انتہائی ممتاز فضلائے کرام میں ہوتا ہے۔ سہول یا سؤل: مفتی صاحب کے زمانۂ طالب علمی کا یہ لطیفہ مشہور ہے کہ زیادہ سوالات کرنے کی وجہ سے مولانا رشید احمد گنگوہی نے فرمایا: ’’تمھارا نام سہول کیوں ہے، سؤل ہونا چاہیے۔‘‘ [1] تدریس: مختلف مدارس میں فرائضِ تدریس انجام دیے۔ جن میں ’’مدرسہ عین العلم‘‘ شاہجہاں پور، ’’مدرسہ اصلاح المومنین‘‘ بھاگل پور، ’’مدرسہ دار الہدیٰ‘‘ بھاگل پور، ’’دار العلوم‘‘ دیوبند، ’’مدرسہ عالیہ‘‘ کلکتہ، ’’مدرسہ عزیزیہ‘‘ بہار شریف، ’’گورنمنٹ مدرسہ‘‘ سلہٹ اور ’’مدرسہ شمس الہدیٰ‘‘ پٹنہ شامل ہیں ۔ علمائے اہلِ حدیث سے روابط: تقدیرِ الٰہی نے مفتی صاحب کو دو مرتبہ موقع فراہم کیا کہ وہ علمائے اہلِ حدیث سے اکتسابِ علم کریں ۔ پہلی بار ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ آرہ میں اور دوسری مرتبہ دہلی میں شیخ الکل سیّد نذیر حسین محدث دہلوی کی خدمت میں ۔ لیکن اپنے فقہی ذوق و تصلب کی وجہ سے علمائے اہلِ حدیث کے ساتھ اکتسابِ علم کا کوئی دیرپا رشتہ وہ قائم نہ کر سکے، تاہم اپنے فقہی مسلک سے بھرپور انسلاک کے باوجود مفتی صاحب بڑے روادار اور وسیع المشرب تھے۔ عملی زندگی میں علمائے اہلِ حدیث کے ساتھ بھی ان کے روابط تھے جنھیں نبھانا وہ بخوبی جانتے تھے۔ مفتی صاحب کے سوانح نگار مولانا قسیم الدین فیروزی لکھتے ہیں : ’’آپ کا ہمیشہ یہ اصول رہا کہ ہر مکتبِ فکر کے بزرگوں سے بڑے خلوص، خندہ پیشانی اور احترام سے ملتے۔ پٹنہ میں اہلِ حدیثوں کا مرکز صادق پور رہا ہے۔ ان کا ایک مدرسہ ’’اصلاح المسلمین‘‘ ہے۔ وہاں مولانا سیّد کفایت حسین صاحب صدر مدرس تھے جو راقم الحروف کے نانا کے بڑے بھائی تھے۔ ان سے و نیز مولانا عبد الخبیر صاحب نواسہ حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب سے بڑے مخلصانہ تعلقات تھے۔ مولانا عبد الرحیم صاحب تحریکِ جہاد سیّد احمد صاحب بریلوی و اسماعیل شہید دہلوی کے بڑے سرگرم رکن تھے۔ انگریزوں نے
[1] حیات مولانا محمد سہول عثمانی بھاگل پوری (ص: ب)