کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 549
میں قادیانیت کے اوّلین مبلغ و داعی بنے۔ مولانا قسیم الدین فیروزی لکھتے ہیں : ’’آگے چل کر یہی عبد الماجد صاحب صوبہ بہار میں سب سے پہلے مرزا غلام احمد کے زیرِ اثر آئے اور قادیانی ہو گئے۔ ان کی لڑکی کی شادی بھی میاں بشیر الدین محمود صاحبزادہ مرزا غلام احمد قادیانی سے ہوئی۔ بہار میں بہتیرے مسلمانوں کو انھوں نے دینِ اسلام سے منحرف کیا۔‘‘[1] اس طرح اللہ رب العزت نے انھیں اپنے فضل و کرم سے ایک گمراہ و مرتد شخص کی صحبت سے محفوظ رکھا۔ ابتدائی تعلیم: مفتی صاحب نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ اس کے بعد خانقاہِ شہبازیہ بھاگل پور میں مولانا شاہ اشرف عالم بھاگل پوری کے زیرِ سایہ تربیت کے مراحل طے کیے۔ کسبِ علم کے مختلف مراحل: مفتی صاحب کو حصولِ علم کا شوق دامن گیرہو چکا تھا۔ بھاگل پور میں رہتے ہوئے اس شوق سے سیرابی ممکن نہیں رہی۔ اس لیے سب سے پہلے آرہ پہنچے، جہاں ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ میں کچھ عرصہ داخل رہے اور بعض کتبِ درسیہ پڑھیں ۔ اس کے بعد ’’جامع العلوم‘‘ کان پور میں مولانا احمد حسن کان پوری، مولانا محمد اسحق بردوانی، مولانا محمد رشید کانپوری، مولانا محمد فاروق چڑیا کوٹی، مولانا نور محمد پنجابی، مولانا عبد الوہاب منطقی بہاری وغیرہم سے تعلیم پائی۔ کان پور سے اپنے گھر واپس آئے، کچھ گھریلو ذمے داریوں کی تکمیل کی۔ اس کے بعد دو ماہ کا پُر از مشقت سفر کر کے اپنے چند ہمراہیوں کے ساتھ عازمِ حیدر آباد دکن ہوئے، جہاں ’’مدرسہ نظامیہ‘‘ میں صدر المدرسین مولانا عبد الوہاب منطقی بہاری اور مولانا لطف اللہ علی گڑھی سے فنونِ کلامیہ کی تحصیل کی۔ اس کے بعد ’’دار العلوم‘‘ دیوبند کے لیے روانہ ہوئے۔ درمیان میں دہلی رکے، یہاں تقریباً ایک ماہ پورا رمضان شریف سیّد نذیر حسین محدث دہلوی کی خدمت میں رہے۔ نمازِ عید کے بعد دیوبند کے لیے روانہ ہوئے۔ ’’دار العلوم‘‘ میں مولانا محمود الحسن دیوبندی سے اخذِ علم کیا اور اپنے استاذ کا مسلک
[1] حیات مولانا محمد سہول عثمانی بھاگل پوری (ص: ۶)