کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 546
نے دنیائے اردو ادب سے اپنی عظمت تسلیم کرا لی۔‘‘[1]
ہاتفؔ کی شاعرانہ عظمت کے اظہار کے بعد ان کے اسلوبِ شاعری کی ایک جھلک ملاحظہ ہو:
تم جَور و جفا کے عادی ہو، ہیں صبر و رضا کے خوگر ہم پہلو میں دبائے پھرتے ہیں اب دل کے عوض اک پتھر ہم
امید کرم بہلاتی ہے ناکام وفا کی ہمت کو ڈر ہے کہ نہ کہہ دیں جذبہ دل سب حال کسی کے منہ پر ہم
یہ عالم، عالم یاس کا ہے اس عالم کا انداز نہ پوچھ ہر شخص کے پیچھے جاتے ہیں کچھ دور سمجھ کر رہبر ہم
زخم جگر کو چھیڑ نہ للہ چارہ گر منہ کھل گیا کہیں تو میری جاں روئے گا
گواہِ خونِ ناحق بے کسی پیدا کرے کوئی کہیں دھبہ نظر آتا نہیں قاتل کے داماں پر
کمالِ تدبیر چارہ گر ہے کہ زخم دل کا نشاں نہیں ہے ہزار دامن کو دیکھتا ہوں کہیں پہ دھبہ نہیں رفو کا
سینہ جراحت غم پنہاں سے بھر گیا اے درد شاد ہو کہ ترا گھر سنور گیا
دل میں کیوں گھٹ کے رہے دل کی تمنا ہاتفؔ آنکھ سے بہہ کے نکلنے کو لہو پیدا کر
جو جینا ہے تو مرنا ہے جو مرنا ہے تو کیا ڈرنا سرائے دہرِ فانی کی ہر اک شے آنی فانی ہے
حیاتِ جاوداں ملتی ہے مرکر مرنے والوں کو گھٹانے سے بڑھے جو وہ متاعِ زندگانی ہے
دبا دبا کر وہ انگلیوں سے نچوڑتے ہیں دلِ حزیں کو پھر اس پہ شکوہ یہ ہو رہا ہے کہ خونِ حسرت کہیں نہیں ہے
[1] حیات اور شاعری حکیم سید عبد الحی ہاتفؔ (ص: ۷۴)