کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 544
ہو گئیں اور پھر نصیب نہ ہوئیں ۔
’’افسوس ہے کہ میرا دہلی کا کل اصلاحی کلام، جو آغازِ شباب کی رنگینیوں میں شرابور تھا، ضائع ہو گیا اور اس طرح چار پانچ برس کی میری اور میرے استادوں کی محنت (کیونکہ میں نے اتنے ہی دنوں تک اصلاح لی ہے) جن کو ہمیشہ مجھ سے بہتر توقعات تھیں ، برباد ہو گئیں ۔
’’ ۱۹۳۱ء تک پچاس بہاریں نظر سے گزر چکیں ، دامن مراد کی دھجیاں ہوا میں اڑ گئیں ، اب دنیائے مسرت سے دور ایک مجبورِ حیات مجسمہ یاس ہوں ، جو نا شاد باید زیستن کے سوا ہنگامۂ جہاں سے کوئی مطلب ہی نہیں سمجھ سکتا۔
تمام عمر بسر گشت و ہیچ نقش نہ بست بہ حیرتم کہ چہ قدرت نوشت روز الست
(ہاتفؔ)‘‘[1]
حلیہ:
ہاتفؔ پچنوی درمیانہ قد اور گداز جسم کے مالک تھے۔ رنگ سانولا، ابھری ہوئی بھاری ناک اور گول چہرہ تھا۔اوائل جوانی میں داڑھی نہیں تھی۔ بعد میں داڑھی رکھی، مگر ان کی داڑھی چھوٹی تھی۔ چہرے سے سنجیدہ اور مہذب لگتے تھے۔[2]
اخلاق و عادات:
حکیم عبد الحی ہاتفؔ عمدہ اخلاق و عادات کے حامل تھے۔ وسیع المشرب انسان تھے۔ لوگوں کی کفالت اور مدد کرنے کا انھیں خاص شوق و ذوق تھا۔ ناداروں کو تلاش کرتے اور ان کی مدد کرتے۔ اپنے عزیزوں میں سے کئی ایک بچوں کی کفالت کی، ان کے تعلیمی اخراجات اٹھائے اور یہاں تک کہ بعض کی شادیاں بھی اپنے خرچ پر کرائیں ۔ والدین کا بڑا پاس و لحاظ رکھتے تھے۔
تلاوتِ قرآن کریم کی مستقل پابندی تھی۔ اپنے قیامِ جموئی کے زمانے میں قاضیِ نکاح بھی رہے۔ طبابت ان کا پیشہ تھا، مگر ان کے لیے ایک ذریعۂ خدمت بھی تھا۔ نادار اورغریبوں کو بلا قیمت
[1] مسلم شعرائے بہار (۵ / ۱۸۴۔۱۸۶)
’’تمام عمر گزر گئی مگر کام کی صورت نہ بن سکی، میں حیران ہوں کہ روزِ ازل اﷲ تعالیٰ نے میرے حق میں کیا لکھا ہے۔‘‘
[2] حیات اور شاعری حکیم سید عبد الحی ہاتفؔ (ص: ۶۲)