کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 543
حکیم عبد المجید خاں صاحب مرحوم (جو بڑے بھائی حکیم اجمل خاں کے تھے)، مسیح الملک حکیم اجمل خاں مرحوم اور ان کے برادر اوسط حکیم واصل خاں صاحب مرحوم سے طب اور شمس العلماء مولانا نذیر حسین صاحب مرحوم عرف میاں صاحب محدث دہلوی اور ان کے پوتے مولوی ابو الحسن صاحب اور مولوی عبد اللہ بیگ صاحب مرحوم سے حدیث و تفسیر و فقہ اور مدرسہ نعمانیہ دہلی میں منطق و فلسفہ و اقلیدس اور شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد صاحب مرحوم مشہور مترجم قرآن سے عربی علمِ ادب پڑھنا شروع کیا۔
سب سے فارغ التحصیل ہو کر جناب حسین یمنی ثم بھوپالی سے بھی حدیث کی سند حاصل کی۔ شاعری کا باضابطہ آغاز روز افزوں ترقی کے ساتھ دہلی میں ہوا۔ منشی قربان علی صاحب بسملؔ سے، جو اس زمانہ میں ’’نسیم‘‘نامی ماہوار رسالہ کے ایڈیٹر تھے، اصلاح لینا شروع کیا۔ کچھ دنوں بعد حکیم ضامن علی صاحب مرحوم جلالؔ لکھنوی کی شاگردی اختیار کی پھر فصیح الملک استاد داغؔ دہلوی کے حلقۂ تلمذ میں داخل ہوا اور ان سے بذریعہ خط کتابت اصلاح لینے لگا۔ جب استاد مرحوم حضور نظام کے ساتھ ۱۹۰۳ء کے دہلی دربار تشریف لائے تو بارہا بالمشافہ بھی اصلاح کا شرف حاصل ہوا، پچاسوں شاگرد اور شاگردوں کے شاگرد جن میں آغا شاعر بیخودؔ دہلوی ممتاز تھے، باری باری اپنی غزلیں ، نظمیں ، قصیدے وغیرہ پڑھتے جاتے اور استاد برجستہ بہتر سے بہتر اصلاح دیتے جاتے تھے، کبھی کسی لفظ کی تلاش و تجسس میں دقتوں کا سامنا نہیں ہوتا تھا۔ مولانا عبد الرحمن صاحب راسخؔ مرحوم، وحید الدین بیخودؔ، آغاؔ شاعر، نواب سراج الدین احمد خاں سائلؔ، نواب احمد سعید خاں صاحب مضطرؔ، چندی پرشاد شیداؔ، پیارے لال رونقؔ، مہاراج بہادر برقؔ، ہر کشن داس رسواؔ، عبد الغفار مفتوں ؔ، عاشق علی عاشقؔ، قمر الدین قمرؔ، نواب مرزا ازلؔ، روشن علی روشنؔ، فصیح الدین فصیحؔ، مولانا بشیر بشیرؔ کے ساتھ اکثر دہلی کے مشاعروں میں کامیاب سخن طرازی کا اتفاق ہوا۔ ہائے کیا پُر لطف صحبتیں تھیں جو طالب العلمی کی آزادانہ زندگی کے ساتھ ہی ختم