کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 54
مولانا محمد احسن سے ہے۔ اس عہد میں ڈیانواں کو مدینۃ العلم بنانے کی سعی کی گئی۔ وہاں نامور اساتذہ بلائے گئے اور طلابِ علوم کے وظائف مقرر کیے گئے۔ مولانا گوہر علی کے عہد میں مولانا ابو الحسن منطقی عظیم آبادی، شیخ عبد الحکیم شیخ پوری، مولانا مسیح اللہ، مولانا راحت حسنین بتھوی وغیرہم جیسے اساتذۂ علم ڈیانواں میں فروکش تھے۔ مولانا محمد احسن کے عہد میں پرانے مدرسین بدستور برقرار رہے، لیکن نئے واردین میں مولانا لطف العلی راج گیری بہاری اور مولانا محمد احسن استھانوی جیسے اکابرِ علم شامل ہیں ۔
ڈیانواں کا دورِ ثالث اس کا عہدِ عروج ہے۔ جب علامہ شمس الحق خود مسندِ علم پر متمکن ہوتے ہیں ۔ اس عہد میں ڈیانواں کی علمی بہاروں کی شہرت صرف صوبہ بہار تک محدود نہیں رہتی، بلکہ ارضِ ہند سے سامعہ نواز ہوتے ہوئے بلادِ عرب و مغرب تک جا پہنچتی ہے۔ علامہ عظیم آبادی کے عہد میں علماء و اساتذۂ علم کا ایک مجمع ڈیانواں میں جمع ہو جاتا ہے جن میں کچھ مسندِ درس و تدریس سنبھالتے ہیں اور کچھ تصنیف و تالیف میں جہد و سعی کرتے ہیں ، ان مشاہیر علما میں استاذ الاساتذہ حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری، علامہ عبدالرحمن مبارک پوری، مولانا ابو الفیاض نور محمد مؤی اعظم گڑھی وغیرہم شامل ہیں ۔
ڈیانواں کا عہدِ عروج (دورِ ثالث) علامہ شمس الحق کے غروب کے ساتھ ہی غروب ہو جاتا ہے۔ عہدِ رابع ان کے فرزند مولانا حکیم محمد ادریس سے تعلق رکھتا ہے۔ ۱۹۲۰ء میں انھوں نے ڈیانواں میں جامع ازہر کی بنیاد رکھی مگر اسے کامیابی سے چلا نہ سکے۔ ہر چیز پر زوال آتا گیا، نہ تدریس کا کوئی سلسلہ منظم بنیادوں پر قائم رہ سکا، نہ تصنیف و تالیف ہی کی کوئی قابلِ قدر سعی ہو سکی اور نہ آبائی دولت و ثروت ہی کی حفاظت ہو سکی۔
ڈیانواں میں سید نذیر حسین دہلوی کے تلامذہ:
سید نذیر حسین دہلوی سے مولانا تلطف حسین عظیم آبادی نے دریافت کیا تھا کہ صاحبزادگانِ ڈیانواں سے کوئی کتبِ ستہ کی تحصیل کے لیے حاضر ہونا چاہتا ہے۔ سید صاحب جواب میں لکھتے ہیں :
’’صاحبزادگانِ ڈیانواں میں سے جو صاحبزادہ تحصیلِ صحاح ستہ کی غرض سے تشریف لائیں