کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 539
مذکور نہیں ، جب کہ امرِ واقعہ یہ ہے کہ مولانا عبد الغفور، شیخ الکل کے فیضِ علمی سے مستفید ہونے والے خوش نصیب افراد میں سے ایک تھے۔ اس کا ایک انتہائی معتبر حوالہ پیشِ خدمت ہے۔ مولانا ابو القاسم سیف بنارسی ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) کے قارئین کو اطلاع دیتے ہیں :
’’میاں صاحب کے دو پرانے شاگردوں مولوی محمد لطف علی صاحب بلیاوی اور مولوی محمد عبد الغفور صاحب رمضان پوری بہاری کا انتقال ہو گیا۔ انا للہ۔‘‘[1]
ان معتبر شہادات کے بعد کیا شبہہ باقی رہ جاتا ہے کہ مولانا حکیم عبد الغفور، سید نذیر حسین دہلوی کے تلمیذِ رشید اور باعتبارِ مسلک عامل بالحدیث بزرگ تھے۔
علم و فضل:
جناب انیس الرحمن انیسؔ ایڈوکیٹ اپنی کتاب ’’انیس معاشرہ‘‘ (معاشرہ بہار) میں لکھتے ہیں :
’’مولانا عبد الغفور رمضان پوری صاحب تحفہ مریضہ کے نام سے مشہور ہیں ۔ مولانا کی شخصیت عربی زبان دانی اور علم و فن کے اعتبار سے ایسی تھی کہ اہلِ عرب ان کی طرف متوجہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ مولانا کی متعدد کتابیں شام و عراق میں سر چشمۂ علم و فضل سمجھی گئیں ۔ اس کے علاوہ بھی مولانا کی بہت سی دوسری کتابیں ہیں جو اہلِ علم کی نگاہوں سےمخفی نہیں ۔ علومِ عربیہ میں آپ کا مقام علمائے عالم اسلامی میں ممتاز تھا۔‘‘[2]
اولاد:
مولانا کو اللہ رب العزت نے اولادِ ذکور میں تین صاحبزادے عطا کیے، جن کے نام حسبِ ذیل ہیں : حافظ عبد الشکور، عبد الحفیظ اور محمد مبین۔ بڑے صاحبزادے حافظ عبد الشکور ۱۲۸۹ھ میں پیدا ہوئے، قرآن مجید حفظ کیا۔ ۱۳۰۴ھ میں پہلی بار رمضان پور کی مسجد میں نمازِ تراویح کی امامت کی اور قرآن کریم سنایا۔ کتبِ فارسی کی بھی تحصیل کی، اس کے بعد کلکتہ میں انگریزی تعلیم حاصل کی۔ عبدالحفیظ اور محمد مبین نے بھی کلکتہ سے انگریزی تعلیم حاصل کی۔[3]
[1] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۱۵ نومبر ۱۹۲۹ء
[2] انیس معاشرہ۔معاشرہ بہار (ص: ۸۱)
[3] تذکرہ مشاہیرِ رمضان پور (ص: ۱۳)