کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 538
فرمایا ہے، یعنی تین مسجدوں (مسجد الحرام، مسجدِ مدینہ و مسجدِ اقصیٰ) کے سوا کسی اور جگہ کے لیے بنظرِ عبادت و تحصیلِ ثواب سفر کرنا جائز نہیں ۔ اس لیے بہ قصد و نیت ادائے نماز مسجدِ نبوی جانا ہر ایک اختلافات سے بچنا اور امر متفق علیہ پر عمل کا ثواب حاصل کرنا ہے، اور چونکہ قبر انور شفیع یوم المحشر کی مسجد ہی کے اندر ایک گوشہ میں واقع ہوئی ہے اس واسطے جناب رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ و سلام بھیجنا یکے از ضروریات، بلکہ واجبات اور اکثر طاعات سے اشرف اور سائر مندوبات سے افضل ہے۔
چہ خوش بود کہ بر آید بیک سفر دو کار‘‘[1]
’’کیا ہی خوش آئند بات ہے کہ ایک ہی سفر میں دو کام ہو جاتے ہیں ۔‘‘
مولانا کی بیشتر کتابیں بھی اہلِ حدیث مطابع سے شائع ہوئیں ۔ مطبع انصاری دہلی، مطبع فاروقی دہلی، مطبع سعید المطابع بنارس اور مطبع صدیقی لاہور، اہلِ حدیث علماء کی کتابوں کے معروف ناشرین تھے۔
ڈاکٹر مظفر اقبال نے مولانا کے حالات ان کے اعزہ مولوی عبد الرحیم ساکن کونند اور پروفیسر عبدالواسع کی روایات کی بنا پر لکھے ہیں ۔ چونکہ یہ اعزہ حنفی تھے، یہی وجہ تھی کہ انھوں نے مولانا کو بھی حنفی باور کرایا۔
شکرانواں (بہار) سے تعلق رکھنے والے ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) کے ایک نامہ نگار محمد محمود عالم نے مولانا کی وفات پر یہ خبر شائع کروائی:
’’مولوی عبد الغفور صاحب رمضان پوری کا انتقال ہو گیا ۔إنا ﷲ۔ مرحوم بڑے دیندار اور پکے اہلِ حدیث تھے۔‘‘[2]
شیخ الکل سیّد نذیر حسین دہلوی سے نسبتِ تلمذ:
اسی طرح مولانا کی سوانح کا دوسرا بڑا المیہ شیخ الکل سیّد نذیر حسین دہلوی سے ان کے نسبتِ تلمذ کا عدمِ ذکر ہے۔ مولانا کے کسی تذکرہ نگار نے سیّد نذیر حسین محدث دہلوی سے ان کے نسبتِ تلمذ کا ذکر نہیں کیا۔ شیخ الکل کی سوانح حیات ’’الحیاۃ بعد المماۃ‘‘ میں بھی تلامذہ کے ذیل میں ان کا نام
[1] تحفۃ الحاج (ص: ۳۳)
[2] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۲۴ جنوری ۱۹۳۰ء