کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 537
اس کے بعد مولانا نے اپنے بیان کی تائید میں ’’مجتبیٰ شرح قدوری‘‘، ’’ہدایہ‘‘، عینی کی ’’شرح صحیح بخاری‘‘، ملا علی قاری کی ’’شرح مشکاۃ‘‘، عبد الوہاب شعرانی کی ’’میزان کبریٰ‘‘، ملا جیون کی ’’تفسیر احمدی‘‘، شیخ شرف الدین احمد منیری کی ’’خوانِ پُر نعمت‘‘ سے اقتباسات نقل کیے ہیں ، نیز مرزا مظہر جانِ جاناں دہلوی کا معمول بھی ذکر کیا ہے۔ یہ محض ایک مثال ہے، ورنہ پوری کتاب اسی قسم کے مباحث سے مملو ہے۔ زبان سے نیت کرنے کا مسئلہ (ص: ۲، ۳)، نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا (ص: ۳، ۴)، آمین بالجہر (ص: ۵، ۶)، رفع یدین (ص: ۷)، جلسۂ استراحت (ص: ۸)، عورتوں کی جماعت (ص: ۱۴)، نمازِ جنازہ میں تکبیرِ اولیٰ کے ساتھ سورت فاتحہ پڑھنا (ص: ۱۶)وغیرہا۔ اپنی کتاب ’’تحفۃ الحاج‘‘ میں ’’طواف الزیارۃ‘‘ کے زیرِ عنوان لکھتے ہیں : ’’قارن کے لیے حج و عمرہ میں ایک طواف ایک سعی کرنا حدیث سے ثابت ہے، حنفیہ جو دو طواف دو سعی کہتے ہیں ، قول ان کا موافق قول زید بن علی کے ہے نہ کہ حدیث کے۔ شوکانی نے کہا ہے: ’’السنۃ الصحیحۃ الصریحہ أحق بالاتباع، فلا یلتفت إلیٰ ما خالفہا‘‘[1] ’’مسجدِ نبوی اور قبر شریف‘‘ کے زیرِ عنوان حدیث: ’’لا تشد الرحال‘‘ اور زیارتِ قبرِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مسئلے کو کس خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں ، ملاحظہ فرمائیے: ’’ہر مستطیع غیر معذور کو بشرطِ امن طریق مدینہ منورہ بھی جانا خوش نصیبی اور موجبِ سعادت اُخروی ہے اور نہ جانا کفرانِ نعمت اور قساوتِ ازلی و شقاوتِ ابدی۔ صاحبِ طراز نے لکھا ہے: جو لوگ سفرِ زیارتِ مرقدِ مطہرِ نبوی کو واجب نہیں کہتے ہیں ، اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ باوجود عدم مانع و حصولِ قدرت کے حج کر کے واپس چلے آتے ہیں ، مسجدِ مدینہ کی طرف شدِّ رحال نہیں کرتے، میرے نزدیک یہ بات اچھی نہیں ۔ منذری کہتے ہیں کہ کئی طریق سے یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے صحت کو پہنچی ہے کہ آپ نے ’’لا تشد الرحال الخ‘‘
[1] تحفۃ الحاج (ص: ۲۷)