کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 535
23 تنبیہ الإنسان 24 منہاج الموحدین 25 رسالہ پیچش 26 ترجمہ رسالہ تبریہ[1] یہ مولانا کی ان تصانیف و تالیفات کا ذکر تھا جو ہمارے احاطۂ علم میں آ سکیں ۔ گمانِ غالب ہے کہ اس کے علاوہ بھی مزید علمی ذخیرے مولانا کے قلم نے قرطاسِ ابیض پر منتقل کیے ہوں گے۔ مولانا مناظر احسن گیلانی لکھتے ہیں : ’’رمضان پور بہار میں رئیسوں کی مشہور بستی ہے، انہی رئیسوں میں آپ بھی تھے۔ آپ بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں ، مثلاً: الاسعاف، مفید الاحناف، مرغوب القلوب وغیرہ۔ آخری کتاب طبِ یونانی کے نقطۂ نظر سے اغذیہ یا ماکولات و مشروبات کی بہترین کتاب ہے۔‘‘[2] درس و تدریس: مولانا نے بڑی ہمہ جہت زندگی گزاری۔ فنِ طبابت کی مصروفیات اور تصنیف و تالیف سے رغبت کے ساتھ ساتھ درس و تدریس کی ذمے داریاں بھی نبھائیں ۔ مولانا نے کتبِ صرف و نحو بھی پڑھائیں ۔ کتبِ متوسطات کی تعلیم بھی دی۔ فقہ، حدیث و تفسیر کا درس بھی دیا اور فنِ طب میں بھی اپنے تلامذہ بنائے، تاہم مولانا کے تلامذہ کا حلقۂ بہت وسیع نہیں تھا، ہمیں صرف ان کے رمضان پوری تلامذہ ہی پر اطلاع ہو سکی۔ ’’تذکرہ مشاہیرِ رمضان پور‘‘ میں ان کے تلامذہ کا ذکر موجود ہے۔ مولانا کے تلامذہ میں مولانا عبد اللہ عطار (م ۱۳۰۶ھ)، مولانا حکیم محمد ابراہیم، مولوی محمد اسماعیل عطار (م ۱۳۰۲ھ)، مولوی احسان الحق، مولوی عبد الحق، مولوی حافظ جمال الدین اسود، مولوی حکیم خدا بخش، مولوی مصاحب علی، حکیم تصدق حسین، مولوی الٰہی بخش، ڈاکٹر دیدار بخش وغیرہم شامل ہیں ۔
[1] آخری پانچ کتابوں کا ذکر مولانا محمد شاہد سہارن پوری نے ’’علمائے مظاہرِ علوم سہارن پور کی علمی و تصنیفی خدمات‘‘ میں کیا ہے۔ [2] ہندوستان میں مسلمانوں کا نظامِ تعلیم و تربیت (۱/ ۸۴۳)