کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 531
سے غیر معمولی تعلق تھا۔ ۱۳۲۳ھ میں مولانا کو فریضۂ حجِ بیت اللہ ادا کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ اپنے سفر نامۂ حج کے علاوہ ضروریات و مسائلِ حج سے متعلق مولانا نے چند کتابیں بھی لکھیں ، جن سے مولانا کے وفورِ شوق اور جذبے کا اظہار ہوتا ہے۔ ایک مقام پر لکھتے ہیں : ’’محرر سطور محمد عبد الغفور بن حسین متوطن رمضان پور غفر اللہ لہ ولوالدیہ کو اللہ تعالیٰ دوبارہ توفیقِ حج و عمرہ کی موافق سنت کے دے اور مکرر سفرِ مسجدِ نبوی و زیارتِ قبرِ مصطفوی کی ہمت بخشے۔ میں ’’توبًا توبًا لربنا أوبًا لایغادر علینا خوبًا‘‘ کہوں ، اس کے جواب میں یہ ارشاد ہو: {قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللّٰهِ إِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ } [الزمر: ۵۳]‘‘[1] بحیثیتِ طبیب: مولانا بڑے بلند پایہ طبیب تھے۔ فنِ طب پر کئی کتابیں لکھیں ، جنھیں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ فنِ طبابت میں بھی ان کا شمار بہار کے مشاہیر اطبائے کرام میں ہوتا ہے۔ فنِ طب میں مولانا سے اخذِ علم کرنے والوں کی بھی بڑی تعداد تھی۔ تصنیف و تالیف: مولانا عبد الغفور کو اردو، عربی اور فارسی تینوں زبانوں میں تحریری صلاحیت حاصل تھی۔ ان تینوں زبانوں میں کتابیں لکھیں ، جن میں سے بعض بے حد مقبول ہوئیں ۔ مولانا کی اردو نثر سے متعلق ڈاکٹر مظفر اقبال لکھتے ہیں : ’’مولانا کے رسائل کی زبان عام طور پر سادہ، سلیس اور عام فہم ہے۔ یوں آپ نے کہیں کہیں مقفی عبارت بھی استعمال کی ہے، لیکن اس میں تکلف اور تصنع نہیں ہے۔‘‘[2] مولانا کی تصنیفی خدمات کی تفصیل حسبِ ذیل ہے: 1 ’’مفید الاحناف‘‘: یہ مولانا کی مشہور ترین کتاب ہے، جسے اپنے دور میں بڑی مقبولیت ملی۔
[1] تحفۃ الحاج (ص: ۳۶) [2] بہار میں اردو نثر کا ارتقاء ۱۸۵۷ سے ۱۹۱۴ء تک (ص: ۸۳)