کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 530
حکیم عبد الحی حسنی[1] اور ڈاکٹر مظفر اقبال[2] کے مطابق ۱۲۷۰ھ میں مولانا کی ولادت ہوئی۔ اگر یہ سن خود مولانا ہی کی کسی تحریر (مثلاً: ’’تاریخ رمضان پور‘‘) سے ماخوذ ہے تو بالیقین درست ہے، تاہم مولانا کے صاحبزادے محمد مبین نے ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) میں مولانا کی خبر وفات شائع کروائی تھی جس میں لکھا تھا: ’’میرے والد ماجد مولوی حکیم عبد الغفور صاحب نے پچاسی سال کی عمر میں انتقال کیا، رحمہ اللہ۔ مرحوم بڑے فیاض غریب نواز تھے۔‘‘[3] ۸۵ برس کے حساب سے مولانا کا سنۂ ولادت ۱۲۶۳ھ برآمد ہوتا ہے۔ ہمارا قیاس غالب یہی ہے کہ مولانا کی ولادت ۱۲۷۰ھ میں ہوئی تھی، کیونکہ ’’تذکرہ مشاہیر رمضان پور‘‘ کے مولف مولانا کے معاصر اور رمضان پور ہی سے تعلق رکھتے تھے، نیز یہ کتاب بھی مولانا کی زندگی ہی میں طبع ہوئی تھی۔ ممکن ہے مولانا کے صاحبزادے کو مغالطہ ہو گیا ہو۔ واللّٰه اعلم بالصواب کسبِ علم کے مراحل: مولانا عبد الغفور نے ابتدائی تعلیم رمضان پور میں اپنے اطراف کے علماء مولوی محمد اسماعیل رمضان پوری اور مولوی خادم علی ساکن جیر ڈومرانواں سے حاصل کی۔ ۱۲۹۰ھ میں مولانا محمد احسن گیلانی سے کتبِ درسیہ کی تکمیل کر کے ۱۲۹۱ھ میں ’’مدرسہ مظاہرِ علوم‘‘ سہارن پور تشریف لے گئے، جہاں حدیث کی سند مولانا احمد علی سہارن پوری سے حاصل کی۔ پھر لکھنؤ چلے گئے، جہاں مولانا عبد الحی فرنگی محلی کے حلقۂ درس میں شریک ہوئے۔ وہیں طب کی تحصیل حکیم عبد العزیز بانی ’’تکمیل الطب کالج‘‘ لکھنؤ سے کی۔ دہلی میں سیّد نذیر حسین محدث دہلوی سے اخذ و استفادہ کیا اور تکمیلِ علم کے بعد واپس وطن لوٹے۔ وطن پہنچ کر اپنی پوری زندگی طبابت کے علاوہ درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں بسر کی۔ حرمین شریفین سے محبت: کون سا مسلمان ہو گا جسے حرمین شریفین سے تعلقِ اُنس و محبت نہ ہو؟ مولانا کو بھی حرمین شریفین
[1] نزہۃ الخواطر (ص: ۱۲۸۴) [2] بہار میں اردو نثر کا ارتقا ۱۸۵۷ء سے ۱۹۱۴ء تک (ص: ۸۱) [3] ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۵ نومبر ۱۹۲۹ء