کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 53
مستفید ہوتے۔ اس طرح گویا ڈیانواں میں ایک مدرسہ قائم ہو گیا تھا جس کے تمام تر اخراجات کے کفیل مولانا گوہر علی تھے۔ ان کو نایاب کتابیں جمع کرنے کا بہت شوق تھا، یہی وجہ تھی کہ ان کے کتب خانے میں قلمی کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ جمع ہو گیا تھا۔ ’’دیوانِ باقر‘‘ کے مرتب مولوی سید عطا حسین، مولانا گوہر علی کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’قصبہ ڈیانواں ضلع پٹنہ کے رہنے والے تھے۔ بہت بڑے زمیندار تھے اور نہایت سخی اور فیاض بزرگ تھے۔‘‘[1]
اپنی سخاوت و فیاضی کی وجہ سے مولانا گو ہر علی کو عوام و خواص دونوں میں بڑی مقبولیت حاصل تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی وفات پر بہار سے تعلق رکھنے والے اس عہد کے ہر بڑے تاریخ گو شاعر نے ان کا قطعۂ تاریخِ وفات لکھا، جس میں ان کے علم و فضل اور سخاوت و فیاضی کی بے حد تعریف کی۔[2]
۱۹ جمادی الاولیٰ ۱۲۷۸ ھ کو مولانا گوہر علی نے وفات پائی اور ڈیانواں میں مدفون ہوئے۔[3]
ڈیانواں کی علمی بہار:
ڈیانواں ، بہار کے ان چند مقامات میں سے ایک ہے جہاں کبار علمائے ذی اکرام بھی پیدا ہوئے اور ماہرِ فن اطبائے کرام بھی۔ یہاں بلند پایہ شعرا بھی گزرے اور معتبر سیاسی زعما بھی۔ بہار کی کوئی بڑی اور مستند تاریخ فرزندانِ ڈیانواں کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔
تدریس اور تصنیف کے اعتبار سے ڈیانواں میں علم پروری کے چار مختلف ادوار ہیں ۔ پہلے اور دوسرے عہد کو عہدِ اساس کہا جا سکتا ہے، جس کا تعلق مولانا گوہر علی اور ان کے بڑے صاحبزادے
[1] دیوانِ باقر (ص: ۳۲۸)
[2] مثلاً: مولانا سعید حسرت عظیم آبادی نے ’’قسطاس البلاغۃ‘‘ میں ، مولانا باقر آروی نے ’’دیوانِ باقر‘‘ میں ، شاہ محمد یحییٰ نے ’’کنز التواریخ‘‘ میں اور مولانا احمد کبیر حیرت پھلواروی نے ’’تاریخ الکملاء‘‘ میں تاریخی قطعات لکھے ۔
[3] مولانا گوہر علی ڈیانوی کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو: یادگار گوہری (ص: ۶۰ تا ۸۹)، دیوان باقر (ص: ۲۹۴، ۲۹۵، ۳۲۸)، محدث ڈیانوی (ص: ۷،۸)، حیاۃ المحدث شمس الحق و اعمالہ (ص: ۵، ۶)، مولانا شمس الحق عظیم آبادی، حیات و خدمات (ص: ۴۹، ۵۰)، شرفا کی نگری (۲/ ۲۱۵)، ارضِ بہار اور مسلمان (ص: ۲۵۸ تا ۲۶۳)، ’’الانتقاد‘‘ شمارہ خاص ’’امام شمس الحق عظیم آبادی‘‘ (ص: ۱۶ تا ۱۷، ۲۴ تا ۲۵)