کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 528
بھاگل پوری کی کتاب ہے۔ عبدالماجد بھاگل پوری عربی کے فاضل اور جید عالم تھے، ان کا شمار علامہ عبدالحی فرنگی محلی کے کبار تلامذہ میں ہوتا تھا، مگر یہ ان کی حرماں نصیبی تھی کہ اس قدر علم و فضل کے باوجود انھوں نے ضلالت و گمراہی کی راہ اختیار کی۔ قادیانی مذہب اختیار کیا اور تادمِ آخر قادیانی رہے۔ ’’القائے ربانی‘‘ کا مدلل جواب مولانا انور حسین نے ’’انوارِ ایمانی برائے کشف حقیقت القائے قادیانی‘‘ کے عنوان سے دیا۔ مولانا کی تحریر عالمانہ اور نثر سادہ و رواں ہے۔ مولانا نے بھاگلپوری متبع قادیانیت کی بد دیانتی اور دروغ گوئی کی مثالوں پر مثالیں پیش کی ہیں اور اس کا ناطقہ بند کر دیا۔مولانا کو قادیانی لٹریچر پر بڑی اطلاع تھی اور مرزا و متبعینِ مرزا کی نفسیات سے بھرپور آگاہی۔ ایک دلچسپ تجزیہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’یہ نہایت ہی حیرت انگیز بات ہے کہ مرزا صاحب قادیانی متوفی کی یہ عادت رہی اور ان کے متبعین کی بھی یہی عادت ہے کہ اپنے فریق سے جب دلیل کا مطالبہ کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ آیت قطعی الدلالۃ یا مرفوع متصل صحیح حدیث پیش کرو، اور جب فریق کا جواب دیتے ہیں یا اپنا کوئی دعویٰ ثابت کرتے ہیں تو بحکم ’’الغریق یتشبت بکل حشیش‘‘ یعنی ڈوبتے کو تنکے کا سہارا، کہیں کوئی ذوی الوجوہ آیت یا ناقابلِ احتجاج حدیث پیش کر دیتے ہیں اور کہیں کسی بزرگ کا قول دکھا دیتے ہیں اگرچہ بلا دلیل ہی ہو۔‘‘ [1] ’’انوارِ ایمانی‘‘ مطبع اکبری پٹنہ سے ۱۳۳۲ھ بمطابق ۱۹۱۴ء میں طبع ہوئی۔ تعدادِ صفحات ۵۶ ہے۔ دبستانِ نذیریہ کے اس رکن اور بہار کے اس رفیع المنزلت عالم و مبلغ نے بعارضۂ ضعفِ معدہ ۳ رمضان المبارک ۱۳۴۸ھ بمطابق مارچ ۱۹۲۹ء کو وفات پائی۔[2] 
[1] انوارِ ایمانی (ص: ۵،۶) [2] مولانا سید انور حسین مونگیری کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو: انوارِ ایمانی برائے کشف حقیقت القائے قادیانی، الحیاۃ بعد المماۃ (ص: ۳۴۷)، ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (امرتسر) ۸ مارچ ۱۹۲۹ء