کتاب: دبستان نذیریہ - صفحہ 527
مولانا سیّد انور حسین مونگیری
(وفات: ۳ رمضان المبارک ۱۳۴۷ھ/ مارچ ۱۹۲۹ء)
مولانا سید ابو الخیر انور حسین مونگیری اپنے عہد کے جلیل القدر عالم، مدرس اور مبلغ تھے۔ وہ بہار کے اکابر علمائے اہلِ حدیث میں سے تھے۔ ردِ قادیانیت کے لیے بھی ان کی خدمات قابلِ قدر ہیں ۔
مولانا انور حسین کا تعلق مونگیر شہر کے محلہ ہولی سے تھا۔ اپنے اطراف کے علماء سے کسبِ علم کے بعد انھوں نے کن اساتذۂ علم سے استفادہ کیا؟ اس کی تفصیلات نہیں ملتیں ، تاہم انھوں نے حدیث و تفسیر کی کتابیں دہلی میں شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی سے پڑھیں اور سند و اجازہ حاصل کیا۔
مولانا انور حسین بلند پایہ ماہرِ تعلیم تھے۔ نظامِ تعلیم اور اس کی اصلاح میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے۔ مولانا حافظ ابو محمد ابراہیم آروی کے ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ آرہ کے رکن تھے۔ ’’جلسہ مذاکرہ علمیہ‘‘ کے سالانہ جلسوں میں بالالتزام شرکت فرماتے تھے۔ ۱۳۰۹ھ میں ’’مدرسہ اسلامیہ‘‘ (موضع پٹھاناں ، نالندہ) کے صدر مدرس مقرر ہوئے اور اس کے انتظام کی ذمے داری بھی سنبھالی۔ یہ مدرسہ ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ کی ایک شاخ تھا۔مولانا تحریکِ ندوۃ العلماء کے بھی حامیوں میں سے تھے۔
’’مدرسہ اسلامیہ‘‘ دس بارہ برس سے زیادہ قائم نہ رہ سکا۔ اس کے بعد مولانا نے مونگیر میں اقامت اختیار کی۔ ’’ڈائمنڈ جوبلی‘‘ کالج مونگیر میں عربی و فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔
بہار میں جب قادیانیت کا نشر و شیوع ہوا تو ابتدا میں جن بزرگوں نے اس کی تردید میں حصہ لیا، ان میں مولانا انور حسین بھی شامل ہیں ۔ ردِ قادیانیت میں بہار میں مولانا محمد علی مونگیری کی کتاب ’’فیصلہ آسمانی‘‘ پہلے پہل طبع ہو کر منظرِ شہود پر آئی تو قادیانی حلقوں پر بجلی بن کر گری۔ مرزائی مشن نے بعجلت تمام ’’فیصلہ آسمانی‘‘ کے تینوں حصوں کا جواب طبع کروایا۔ اس ضمن کی ایک کتاب ’’القائے ربانی‘‘ہے جو اسلامیہ اسٹیم پریس لاہور سے ۱۳۳۱ھ بمطابق ۱۹۱۳ھ میں طبع ہوئی۔ ’’القائے ربانی‘‘ پروفیسر عبدالماجد